سانحہ ساہیوال: ‘مقتولین کے ورثا کی جان کو خطرہ ہے‘

اپ ڈیٹ 28 جنوری 2019
وکیل شہباز بخاری نے دعویٰ کیا کہ مقتول خلیل کے اہلِ خانہ کی جان کو خطرہ ہے—فائل فوٹو ڈان نیوز
وکیل شہباز بخاری نے دعویٰ کیا کہ مقتول خلیل کے اہلِ خانہ کی جان کو خطرہ ہے—فائل فوٹو ڈان نیوز

لاہور: سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے شہری خلیل کے بھائی کے وکیل شہباز بخاری نے دعویٰ کیا ہے کہ مقتول خلیل کے اہلِ خانہ کی جان کا خطرہ ہے۔

پریس کانفرنس میں میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مدعی کے وکیل کا کہنا تھا کہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ( سی ٹی ڈی ) کے اہلکار اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہوں نے الزم عائد کیا کہ سی ٹی ڈی کے ایک افسر نے مجھے فون کر کے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں، سی ٹی ڈی اس سارے معاملے کو مس مینجمنٹ کر رہی ہے، حکمرانوں سے گزارش ہے کہ ہوش کے ناخن لیں۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال:فرانزک معائنے کیلئے اہم شواہد اب تک فراہم نہ کیے جانے کا انکشاف

ان کا مزید کہنا تھا کہ دھمکی آمیز کال کی ریکارڈنگ میں ایجنسیز اور افسران کا نام لیا جا رہا ہے، ہماری ایجنسیز دنیا میں بہترین ایجنسیوں میں سے ایک ہیں۔

وکیل شہباز بخاری نے یہ بھی بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ نے کال کرنے والے افسر کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔

تحقیقات کےحوالے سے ان کا کہنا تھا کہ دو دن پہلے کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی نے کوئی پیش رفت نہیں کی اور 2 دن کا وقت دے دیا گیا تھا جس کے بعد کل رات ہی انہوں نے رابطہ کر کے کیس میں ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزمان کو کل جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے اور جے آئی ٹی نے یقین دلایا ہے کہ سرکاری اسلحہ بھی برآمد کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال:’کم وقت میں حتمی رپورٹ مکمل نہیں کی جاسکتی‘

اس کے علاوہ زبانی شہادتوں کے بارے میں جے آئی ٹی نے بتایا ہے کہ کچھ لوگوں کے بیان ریکارڈ کرلیے ہیں تاہم آج یوسف والا تھانے میں جے آئی ٹی موجود ہے جو کوئی شہادت دینا چاہتا ہے جاسکتا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ ادارے کسی کی طرف داری نہیں کریں گے کیوں کہ یہ چھوٹا سانحہ نہیں ہے، اس ضمن میں انٹیلی جنس اداروں نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کہ تفتیش شفاف ہو گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قوم کو عمران خان سے امید تھی، اتنے بڑے سانحے کے بعد وزیراعظم یا ان کے وزرا کو خلیل کے اہِلِ خانہ سے ملاقات کے لیے جانا چاہیے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال:’جے آئی ٹی رپورٹ میں نئے اور پرانے پاکستان کا فرق دکھائی دے گا‘

واضح رہے کہ گزشتہ روز ہی یہ معاملہ سامنے آیا تھا کہ سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے قائم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا تفتیش کے سلسلے میں شواہد اکٹھے کرنے اور انہیں فرانزک معائنے کے لیے جمع کروانے کا سلسلہ خاصی سست روی کا شکار ہے۔

ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پی ایس ایف اے کے ڈائریکٹر جنرل محمد اشرف طاہر کا کہنا تھا کہ ہمیں اب تک 2 چیزیں موصول ہوئی ہیں، ایک تو مقتولین کی کار جس میں وہ سوار تھے دوسرا 60 استعمال شدہ گولیوں کے خول۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ماہرین اپنی رپورٹ مرتب کرنے کے لیے شواہد کے معائنے کے منتظر تھے جس کے لیے ایک ہفتے تک انتظار کر کے پی ایف ایس اے نے پنجاب پولیس کو خط لکھا کہ تمام تر متعلقہ ریکارڈ اور اشیا فراہم کی جائیں تا کہ تفتیشی عمل کو تیز کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک

انہوں نے بتایا تھا کہ ہم اب بھی پوسٹ مارٹم رپورٹ، جائے وقوع سے اکٹھے کیے گئے انگلیوں کے نشانات اور مقتولین کے خود آلود لباس فراہم کیے جانے کے منتظر ہیں۔

ساہیوال واقعہ

19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

یاد رہے کہ سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کو 72 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جے آئی ٹی نے 22 جنوری کو 72 گھنٹے مکمل ہونے پر ابتدائی رپورٹ پیش کی تھی، جس پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کا آپریشن 100 فیصد درست تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق خلیل کا خاندان بے گناہ ہے اور ان کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی کو ٹھہرایا گیا ہے، جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے تمام افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ذیشان جاوید کے بارے میں مزید تفتیش کی مہلت مانگی گئی ہے۔'

راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ 'ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے 5 اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت چالان کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا، ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا ہے۔'

تبصرے (0) بند ہیں