سینیٹ: وزرا کی عدم حاضری پر احتجاج، پابندی کا مطالبہ

29 جنوری 2019
چیئرمین سینیٹ نے وزرا کی عدم موجودگی پر وزیراعظم کو خط لکھ دیا—فائل/فوٹو:ڈان
چیئرمین سینیٹ نے وزرا کی عدم موجودگی پر وزیراعظم کو خط لکھ دیا—فائل/فوٹو:ڈان

سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے قائد ایوان اور وفاقی وزرا کی عدم حاضری پر احتجاج کرتے ہوئے وفاقی وزار پر پابندی کا مطالبہ کردیا۔

سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزرا کی عدم حاضری پر اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا کہ وزرا سینیٹ میں آتے ہی نہیں اس لیے انہیں معطل کر دیا جائے۔

سابق چیئرمین سینیٹ رضاربانی نے کہا کہ پارلیمنٹ چلانے کا یہ کوئی طریقہ نہیں، آپ نے وزیراعظم کو خط لکھا اس کے باوجود آج کوئی موجود نہیں، افغانستان کے ساتھ گفتگو کے معاملے پر ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں وزیر نے آکر کہا تھا کہ سب ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد مذاکرات آگے بڑھے جس کے بعد بھی ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، میں بالخصوص ڈی جی آئی ایس پی آر کا شکر گزار ہوں، ان کے بیان کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں پریس کانفرنس کی۔

مزید پڑھیں:سینیٹ اجلاس میں وزرا کی غیرحاضری، وزیراعظم سے جواب طلب

رضاربانی نے کہا کہ پارلیمنٹ کو ایک لفظ نہیں بتایا گیا، وزیر آئیں گے تو پارلیمنٹ کو بھی کچھ پتہ چلے گا، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں، وزیر خزانہ اسد عمر نے لاہور میں بیٹھ کر بات کی لیکن پارلیمنٹ نہیں آئے۔

سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ پارلیمنٹ میں نہیں آئیں گے، وزیر خارجہ کی کل سامنے آنے والی وڈیو دیکھی ہوتی تو آج یہ سوال نہ کیا جاتا۔

وزیرخارجہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیرخارجہ نے ویڈیو میں کہا کہ فیصلہ کن قوتوں کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ نہ تو نواز شریف کو آنے دیں گے نہ ہی آصف زرداری کو، ہم صرف عوام کو فیصلہ کن قوتیں سمجھتے ہیں لیکن وہ کون سی فیصلہ کن قوتیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب فیصلہ کن قوتوں کی بات کی جائے تو پھر کون سی پارلیمنٹ اور احتساب، پھر احتساب بھی فیصلہ کن قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:'ایوان میں وزراء کی حاضری ایک لازمی امر'

اس موقع پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیڑ جاوید عباسی نے کہا کہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ حکومت آج ہے یا نہیں، پارلیمنٹ کس طرف جا رہی ہے، پارلیمنٹ کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔

جاوید عباسی نے کہا کہ فیصلہ کریں کہ یہ ایوان میں آتے ہیں یا نہیں، اگر وزرا نہیں آتے تو پھر ہم چھٹی کر لیتے ہیں۔

سینیٹ کے اجلاس کے دوران قائد ایوان شبلی فراز بھی پہنچے اور انہوں نے کہا کہ ایک ضروری اجلاس کی وجہ سے تاخیر ہوئی لیکن ہم بھی سمجھتے ہیں کہ وزرا کو ایوان میں آنا چاہیے، پچھلی حکومت میں وزیر خارجہ تو تھا ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کن قوت پاکستان کے عوام ہیں اور شاہ محمود قریشی کا بھی یہی مطلب ہے کہ فیصلہ کن قوتیں عوام ہیں، ابھی تین وزرا موجود ہیں، وزرا کی عدم حاضری ناقابل قبول ہے۔

مزید پڑھیں:سانحہ ساہیوال: سینیٹ کمیٹی اور ورثا کا جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ

شبلی فراز نے کہا کہ وزیر خارجہ نے ایوان میں آکر 45 منٹ تک خارجہ پالیسی بیان کی۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ وزیر خزانہ ہاؤس میں نہیں آتے انٹرویوز دیتے نظر آتے ہیں، حکومت کی کوئی معاشی پالیسی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکسیشن بنیادی مسئلہ ہے، تبدیلی سرکار نے ٹیکس وصولی اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے کچھ نہیں کیا، انقلابی سرکار ملک کو گڑھے میں گرا رہی، تبدیلی سرکار کشکول لیے قرضے لے رہی ہے۔

ہم ان کے خلاف کنٹیر پر احتجاج نہی کر رہے ، سارے ٹیکس غریبوں پر لگلئے جا رہ، یہ حکومت سپلائی سائیڈ کی بد ترین مثال ہے ، غریبوں پر ٹیکس لگائے جارہے ہیں اور قرضے پر قرضے لیے جا رہے ہیں۔

وزرا کی عدم حاضری پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وزیراعظم کو خط لکھ دیا اور ایوان کو آگاہ کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:سینیٹ: ای سی ایل، بلیک لسٹ کے علاوہ ایک اور لسٹ موجود ہونے کا انکشاف

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت نے ایوان میں رواں مالی سال کے دوران ٹیکس ہدف پورا نہ ہونے کا اعتراف کر لیا۔

وزیر مملکت حماد اظہر نے کہا کہ رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ہمارا ٹیکس خسارہ 162 ارب روپے ہے، پیٹرول پر سیلز ٹیکس کم کرنے سے ایف بی آر کو 60 ارب کا شارٹ فال ہوا ، ٹیلی کمیونیکشن پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کے باعث 50 ارب کا نقصان ہوا۔

انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی خریداری پر پابندی کو جاری رکھا گیا جس کے باعث ٹیکس میں کمی ہے لیکن یہ فیصلہ ہم نے دانستہ طور پر کیا تھا تاکہ بالواسطہ ٹیکس نہیں لگے۔

حماد اظہر نے کہا کہ پچھلے 10 میں سے آٹھ سال میں ایف بی آر نے ہدف حاصل نہیں کیا، اس عرصے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 4 ہزار ارب روپے کا ہدف رکھا تھا جس میں 259 ارب روپے کا شارٹ فال رہااور ہمارا بجٹ ہدف 4398 ارب روپے ہے ۔

مزید پڑھیں:سینیٹ: سفری پابندی کی فہرست ’بلیک لسٹ‘ کے خاتمے کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ٹیکس ہدف کا 40 فیصد اور آخری چھ ماہ میں 60 فیصد وصولیاں ہوتی ہیں، ضمنی بجٹ سے 6 اعشاریہ 8 ارب روپے کا ٹیکس وصولیوں میں منفی اثر آئے گالیکن موبائلا سمگلنگ روکنے سے بھی ریونیو میں بہتری آئے گی اورہم اگلے چھ ماہ میں بجٹ شارٹ فال کو قابو کر لیں گے۔

وزیرمملکت نے کہا کہ جی آئی ڈی سی سے حکومت کو پیسے نہیں آ رہے تھے، ان سے بات کر رہے ہیں اسی طرح سی این جی اور ٹیکسٹائل سیکٹر سے ٹیکس کے حوالے سے بات چل رہی ہے اور امید ہے وہاں سے بھی سرمایہ آئے گا۔

حماد اظہر نے کہا کہ ضمنی بجٹ میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا جس پر تنقید کی جا رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں