سینیئر نیب عہدیدار کا متنازع پلی بارگین کا دفاع

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2019
پلی بارگین لوٹی ہوئی دولت کو واپس حاصل کرنے کا سب سے آسان راستہ ہے۔ — فائل فوٹو
پلی بارگین لوٹی ہوئی دولت کو واپس حاصل کرنے کا سب سے آسان راستہ ہے۔ — فائل فوٹو

اسلام آباد: قومی احتساب ادارے (نیب) کے سینیئر عہدیدار نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 کے متنازع رضاکارانہ طور پر رقم واپسی (پلی بارگین) کے قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واحد قانون ہے جس کے ذریعے رقم کی با آسانی بازیابی ممکن ہوتی ہے۔

نیب راولپنڈی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان نعیم منگی نے اسلام آباد میں مقیم غیر سرکاری تنظیم کارپوریٹ ریسرچ اینڈ انویسٹی گیشنز کی جانب سے مقامی ہوٹل میں منعقدہ انسداد رشوت اور انسداد بدعنوانی کے تیسرے سمٹ 2019 سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’پلی بارگین لوٹی ہوئی دولت کو واپس حاصل کرنے اور وائٹ کالر کرائم کے متاثرین کو ان کی رقم واپس کرنے کا سب سے آسان راستہ ہے‘۔

واضح رہے کہ عرفان منگی سابق صدر آصف علی زرداری اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سمیت دیگر کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کیس میں بنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی سربراہی کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: موٹر سائیکل فراڈ کیس: ملزم شاہد محمود کی پلی بارگین درخواست منظور

وہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپر کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف بنی جے آئی ٹی کا بھی حصہ تھے۔

سمٹ سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پلی بارگین کے قانون کو جانےبغیر ہر کوئی تنقید کا نشانہ بناتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پلی بارگین سے فائدہ وہ ملزمان اٹھاتے ہیں جو جیل نہیں جانا چاہتے تاہم لوٹی ہوئی دولت واپس کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، عوام میں پلی بارگین کے حوالے سے ایک غلط نظریہ ہے کیونکہ انہیں معلوم نہیں کہ اس سے فائدہ اٹھانے والے اعتراف جرم کرتے ہیں اور وہ 10 سال تک سرکاری عہدے اور بینک اکاؤنٹس رکھنے کے اہل نہیں ہوتے‘۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کے تفتیشی افسران تفتیش کے اہل ہی نہیں، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ

قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے پلی بارگین قانون کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے ملک کے قانونی نظام کو تنقید بھی کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں قانونی کارروائی کے ذریعے کیس کو حتمی انجام تک پہنچانے میں 5 سے 10 سال لگ جاتے ہیں اور وائٹ کالر کرائم کے متاثرین ان کیسز کے خارج ہونے تک اپنے پیسوں سے محروم رہتے ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ کسی بھی نیب حکام نے آج تک پلی بارگین ڈیل سے فائدہ نہیں اٹھایا ہے۔

نیب ڈائریکٹر جنرل نے سمٹ کے شرکا کو سلائڈ شو پر کرپشن سے عام آدمی کی معمول کی زندگی پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے بتایا۔

انہوں نے سیہون میں گندم ذخیرہ کرنے کے واقعے کا حوالہ دیا اور بتایا کہ علاقے میں غریب عوام بھوکے مر رہے تھے اور ذخیرہ اندوزوں نے تھوڑی سی بھی گندم انہیں نہیں دی تھی۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 30 جنوری 2019 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں