بھارت میں بے روزگاری کی شرح نے 45 سالہ ریکارڈ توڑ دیا، رپورٹ

اپ ڈیٹ 01 فروری 2019
سروے رپورٹ میں بھارت میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد بتائی گئی — فائل فوٹو
سروے رپورٹ میں بھارت میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد بتائی گئی — فائل فوٹو

نئی دہلی: حکومت کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق 18-2017 میں بھارت میں بے روزگاری کی شرح 45 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔

بھارت میں ہونے والے عام انتخابات سے چند ماہ قبل ہی بزنس اسٹینٹدرڈ اخبار میں شائع ہونے والے سروے رپورٹ پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

سروے پر سیاسی تنازع اس وقت سامنے آیا جب نگراں چیئرمین اور ادارے کے دیگر اراکین نے نوکریوں کے ڈیٹا پر نظر ثانی کی اور بتایا کہ اس کے جاری ہونے میں تاخیر کی گئی جس میں ریاست کے دیگر اداروں کی مداخلت شامل ہے۔

مزید پڑھیں: میڈیا میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر اراکین اسمبلی کا اظہار تشویش

اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیشنل سیمپل سروے آفس کی تشخیص کو جولائی 2017 سے جون 2018 کے درمیان کیا گیا جس میں بے روزگاری کی شرح 6.1 فیصد بتائی گئی جو 73-1972 کے بعد سب سے زیادہ رہی۔

1972-73 کے درمیان جب بھارت پاکستان سے جنگ سے باہر آیا تھا تو وہاں بے روزگاری کی شرح 5.18 فیصد تھی۔

اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کے سربراہ راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ ’بے روزگاری کی شرح ’قومی تباہی‘ ہے۔

بھارت کی معیشت سالانہ 7 فیصد کی شرح سے آگے بڑھ رہی ہے تاہم تنقید کاروں کا کہنا ہے کہ معیشت کے حوالے سے حکومتی دعوے کھوکھلے ثابت ہیں۔

مودی کے ’بھارت بناؤ‘ منصوبے، جس کا مقصد مقامی سطح پر پیداوار کو کو بڑھا کر جی ڈی پی کو 17 فیصد سے 25 فیصد تک لے جانا اور 12 لاکھ نوجوانوں کے لیے روزگار فراہم ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جس میں 15 سے 29 سال کے شہری مرد 18.7 فیصد کے پاس کوئی کام نہیں اور اسی عمر کی شہری خواتین 27.2 فیصد بے روزگار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں 35 لاکھ افراد بے روزگار ہیں، رپورٹ

اس سے بھی بری حالت افرادی قوت کی شراکت داری میں سامنے آئی، روزگار تلاش کرنے والی یا کام کرنے والی آبادی کے درمیان تناسب 19-2017 کے درمیان 36.9 فیصد ہوگیا ہے۔

نئی دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اسوسی ایٹ پروفیسر ہمانشو، جو معاشی امور پر مہارت رکھتے ہیں، کا کہنا تھا کہ روزگار کا بحران ہر جگہ نظر آرہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ممبئی میں پی ایچ ڈی افراد کا ویٹر بننا یا گجرات میں چند ہزاروں روپے کی نوکری کے لیے لاکھوں افراد کا درخواست دینا یا ریلوے میں چند آسامیوں پر 1 کروڑ افراد کی درخواست دینے کی خبریں ثابت کرتی ہیں کہ یہ مسئلہ ہر جگہ موجود ہے‘۔

واضح رہے کہ بھارت میں جولائی 2017 میں قومی سیلز ٹیکس کے نفاذ کے بعد سے چھوٹے کاروبار میں لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے تھے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں یکم فروری 2019 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں