’بینظیر بھٹو کے خلاف سازش میں عمران خان بھی ملوث تھے‘

اپ ڈیٹ 09 فروری 2019
پیپلز  پارٹی کا عبد الستار ایدھی کا انٹرویو اصغر خان کیس کا حصہ بنانے کا مطالبہ— فائل فوٹو: ڈان نیوز
پیپلز پارٹی کا عبد الستار ایدھی کا انٹرویو اصغر خان کیس کا حصہ بنانے کا مطالبہ— فائل فوٹو: ڈان نیوز

وزیرِ بلدیات سندھ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما سعید غنی نے الزام عائد کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے خلاف سازش میں موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی ملوث تھے۔

اپنے بیان میں سعید غنی نے اصغر خان کیس کی سماعت دوبارہ مقرر کرنے پر سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اصغر کان کیس میں بہت سارے سازشی بے نقاب ہوں گے، کیونکہ 1990 میں محترمہ بینظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لیے قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔

صوبائی وزیر نے الزام عائد کیا کہ موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان بھی بینظیر بھٹو کے خلاف سازش میں ملوث ہیں، جبکہ مطالبہ کیا کہ عبدالستار ایدھی کا انٹرویو بھی ریفرنس کا حصہ بنایا جائے۔

سعید غنی نے عمران خان کو کٹھ پتلی وزیراعظم قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ عمران خان نے لیفٹننٹ جنرل (ر) حمید گل کے ساتھ مل کر بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کے خلاف سازش کی۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ’جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ، لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی، بریگیڈیئر (ر) امتیاز علی اور میجر عامر کو بھی کٹہرے میں لایا جائے۔‘

سعید غنی کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کی کردار کشی کی گئی اور یہ بھی اسی سازش کا حصہ تھی، جبکہ اس مہم پر قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔

صوبائی وزیر نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے انتخابی نتائج چوری کیے گئے۔

واضح رہے کہ 11 جنوری کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مرحوم ایئر مارشل (ر) اصغر خان کے اہلِ خانہ کی درخواست قبول کرتے ہوئے اس کیس کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیا تھا۔

چنانچہ اب جسٹس گلزار احمد، جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ 11 فروری کو اصغر خان کیس کے 2012 میں دیے جانے والے فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعت کرے گا۔

اصغر خان کیس — اب تک کیا ہوا!

سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس 1996 میں دائر ہوا، مقدمے کی رو سے اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کی ہدایت پر ایوان صدر میں 1990 کے انتخابات کے لیے الیکشن سیل بنایا گیا، جس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی شامل تھے۔

مقدمے میں کہا گیا تھا کہ 1990 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کے لیے آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ نے مبینہ طور پر مہران بینک کے یونس حبیب کے ذریعے سیاستدانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کیے، جس سے عوام کو شفاف انتخابات اور حق رائے دہی سے محروم رکھ کر حلف کی رو گردانی کی گئی۔

بعد ازاں 16 سال بعد عدالت نے 2012 میں مذکورہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریٹائر جرنیلوں اسلم بیگ، اسد درانی اور مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا اور رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایف آئی اے کی اصغر خان عملدرآمد کیس بند کرنے کی سفارش

اس ضمن میں تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا، 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی جبکہ اسلم بیگ اور اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے، ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا، اداروں کا نہیں۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، صدر مملکت ریاست کا سربراہ ہوتا ہے، صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے، ایوان صدر میں کوئی سیل ہے تو فوری بند کیا جائے۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کیس میں کافی ثبوث جمع کیے گئے، لہٰذا ایف آئی اے فنڈز وصول کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کے لیے مقدمات کی تیاری کرے۔

جس کے بعد سپریم کورٹ کے 2012 کے فیصلے کی روشنی میں ایف آئی اے کی جانب سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس میں سابق ڈائریکٹر جنرل غالب بندیشہ، ڈاکٹر عثمان انور، قدرت اللہ مروت اور نجف مرزا شامل تھے۔

اس تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے اصغر خان کیس کے فیصلے کے تقریباً ایک سال بعد 2013 کے اختتام پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اصغر خان کیس: نواز شریف نے رقم لینے کا الزام مسترد کردیا

اپنی تحقیقات کے دوران 2015 تک ایف آئی اے کی جانب سے سابق وزیر اعظم نواز شریف، ایئر مارشل (ر) اصغر خان، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی، مہران بینک کے مالک یونس حبیب، ایڈووکیٹ یوسف میمن اور معروف صحافی الطاف حسین قریشی کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے۔

اس ضمن میں فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے نظرثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں جو رواں سال 6 مئی کومسترد کر دی گئیں تھیں۔

بعد ازاں 9 جون کو اصغر خان عملدرآمد کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرایا تھا، جس میں انہوں نے 1990 کی انتخابی مہم کے لیے 35 لاکھ روپے لینے کے الزام کو مسترد کردیا تھا۔

انہوں نے کہا ہے کہ1990 کی انتخابی مہم کے لیے اسد درانی یا ان کے کسی نمائندے سے کوئی رقم نہیں لی اور نہ ہی کبھی یونس حبیب سے 35 لاکھ یا 25 لاکھ روپے وصول کیے۔

نواز شریف نے کہا تھا کہ ان الزامات سے متعلق 14 اکتوبر 2015 کو اپنا بیان ایف آئی اے کو ریکارڈ کروا چکا ہوں۔

مزید پڑھیں: اصغر خان کیس: ’عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ ہوا تو فوجی حکام کو طلب کریں گے‘

اس کے علاوہ اصغر خان کیس میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اپنی جماعت پر عائد الزامات کے حوالے سے اپنا بیان حلفی جمع کرادیا تھا۔

سراج الحق نے بھی 1990 کے انتخابی مہم کے لیے آئی ایس آئی سے رقم لینے کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بیان حلفی میں کہا تھا کہ جماعت اسلامی 2007 میں رضاکارانہ طور پر عدالتی کارروائی کا حصہ بنی،ہم نے آئی ایس آئی سے کوئی رقم وصول نہیں کی، ہم کسی بھی فورم یا کمیشن میں جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں