بچے کا پہلا سال نشو و نما اور افزائش کے اعتبار سے کافی اہم ہوتا ہے۔ جب آپ کے بچے کی پہلی سالگرہ قریب آتی ہے تو آپ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ آپ کا اور آپ کے بچے کا سفر کہاں سے شروع ہوا اور آج آپ دونوں کہاں کھڑے ہیں۔

اب تو آپ اپنے بچے کے بغیر اپنے اہل خانہ کو نامکمل تصور کریں گے۔

9 سے 12 ماہ تک کے بچوں کی روٹین

اس عمر کے بچوں کے لیے دن کے دوران دو گھنٹے جاگنا اور دو گھنٹے سونا مناسب رہتا ہے۔

صبح 5 سے 6 کے درمیان جاگنا، 9 سے 10 کے درمیان صبح کی نیند کرنا، اور پھر 2 بجے دوپہر کی نیند کرنا، بچوں کی عام طور پر سونے اور جاگنے کی عادت شمار ہوتی ہے۔

حد سے زیادہ تھکاوٹ سے بچے کے رویے میں بدمزاجی اور شدید چڑچڑا پن پیدا ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کا بچہ سونا نہیں چاہتا ہو لیکن اگر بچہ واضح طور پر تھکاوٹ کا شکار نظر آئے تو اسے سلانے کی بھرپور کوششیں جاری رکھنا ٹھیک ہے۔

مگر یاد رکھیے آپ اپنے بچے کو نیند کے لیے زبردستی مجبور نہیں کرسکتے۔ آپ صرف انہیں سلانے کے لیے مختلف طریقوں سے کوشش ہی کرسکتے ہیں آگے ان کی اپنی مرضی ہے کہ وہ جاگیں یا سوئیں۔

خوراک

9 سے 12 ماہ کا بچہ تیزی سے ہوتی نشو ونما سے گزر رہا ہوتا ہے تو ان کی اس نشو ونما کو برقرار رکھنے کے لیے مسلسل قوت درکار ہوتی ہے۔ مگر بھوک لگنے اور خوراک کھانے کی اس عادت سے بچوں میں نیند کرنے کی خواہش بھی بڑھ سکتی ہے۔ آپ کا بچہ اپنی زندگی کے دوران ایسے مرحلوں سے بھی گزرے گا جہاں ان کی تمام تر قوت نشو ونما میں خرچ ہوگی، جو کافی تھکا دینے والا کام ہے۔

—اے ایف پی
—اے ایف پی

3مشورے

  1. بچوں کو خوراک کھلانے کے وقت کو 20 منٹ تک محدود کردیجیے۔ اس سے زیادہ وقت ہوا تو بچے دلچسپی کھودیں گے اور خیال رکھیے کہ کھانے کا وقت کبھی بھی میدان جنگ میں تبدیل نہ ہو۔
  2. آپ صرف اپنی کھانے کی عادت کی فکر کریں۔ بہتر یہی ہے کہ آپ کا بچہ خود سے ہی اپنی کھانے کی عادات پیدا کریں جو کہ کسی دوسرے شخص کے کنٹرول میں نہ ہو۔
  3. کھانے پر لگے لیبلز کو پڑھیے اور جانیے کہ آپ کا بچہ کیا کھا رہا ہے۔ آپ سے بڑھ کر اور کوئی بھی آپ کے بچے کی غذائیت خیال نہیں رکھنا چاہے گا۔

نیند

9 سے 12 ماہ کے بچوں کو دن میں 2 بار نیند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ بیچ میں خوراک لیے بغیر پوری رات نیند کرسکتے ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو زیادہ نیند کا موقع فراہم ہوگا، شاید نہیں۔

وہ بچے جنہیں سونے کے لیے اپنے والدین کی مدد درکار ہوتی ہے وہ خود سے سونے کا ہنر سیکھ ہی نہیں پاتے۔ آپ ایک عرصے تک ہی بچوں کو کھانا کھلا کر، جھولا جھولاکر، گود میں اٹھاکر، یا ساتھ سو کر یہاں تک کہ ڈرائیونگ کرکے سلانے کے طریقوں کو ایک عرصے تک استعمال کرسکتے ہیں۔ والدین کی شدید تھکاوٹ ہی تبدیلی کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتی ہے۔

3 مشورے

  1. اپنے بچے کی نیند اور اس کے سونے کی روٹین کا اندازہ لگانا سیکھیں اور اس پر مستقل مزاجی کا مظاہرہ کریں۔ جب روٹین کا پتہ لگ جائے تو بچے کو سلانے کی تیاری کرتے وقت ہمیشہ اسی روٹین پر عمل کریں۔
  2. جب اپنے بچے کو سلانے کی تیاری کریں تو اس وقت انہیں نفیس انداز سے کہیے کہ ’لیٹ جاؤ، سونے کا وقت ہوگیا ہے۔‘ زبانی کلام سے بچوں کو یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے۔
  3. بچوں کے کوٹ (پلنگ) میں تکیے کا استعمال نہ کریں۔ جب تک بچے کوٹ کے بجائے پلنگ پر سونے کے قابل نہیں ہوجاتے تب تک تکیوں کا استعمال غیر محفوظ ہوسکتا ہے۔

رویہ

اس عمر میں بچے خود سے کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور رینگ کر چلنا (کرالنگ) شروع کردیتے ہیں لہٰذا خیال رکھیے کہ آپ کے ٹیبلیٹس، ٹیلی وژن سیٹ اور فرنیچرز کو ایسی جگہ پر رکھیں کہ یہ بچوں پر نہ گریں۔ گھر کے دروازوں اور سیڑھیوں کے پاس بیبی گیٹس کا استعمال کریں تاکہ بچے محفوظ رہیں اور باہر نکلنے یا نیچے گرنے کا کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ اس کے علاوہ بچوں کو ہر طرح سے محفوظ جگہ تک ہی رسائی دیجیے۔

3 مشورے

  1. اگر آپ اپنی مصروف زندگی میں وقفہ لینا چاہتے ہیں تو اپنے اور اپنے بچے کے درمیان فاصلہ پیدا کریں۔ جہاں تک ان کے رونے اور ان کی طلب کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اپنی حدود کو جاننے کی کوشش کیجیے۔ آپ کو اپنا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
  2. اگر آپ کا بچہ تھکا ہوا ہے تو اس سے زیادہ توقعات نہ رکھیں۔ صرف بنیادی باتوں پر ہی دھیان دیجیے اور بچے کو کوٹ میں ڈالے جانے پر ہی توجہ مرکوز رکھیے۔ جب بچے سو رہے ہوں تو خود کو آرام پہنچانے کے لیے وقفہ لیجیے۔
  3. گھر کو ہر اعتبار سے بچے اور اپنے قیمتی سازو سامان کے لیے محفوظ بنائیے کیونکہ اس عمر کے بچوں کو یہ نہیں سکھایا جاسکتا ہے کہ کس قیمتی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا۔ لہٰذا اپنے بچے کو سمجھانے کی کوشش میں اپنی قوت ضائع مت کریں بلکہ جو آسان کام ہے وہی کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں