خاندانی منصوبہ بندی کی کم معلومات، سالانہ 21 لاکھ اسقاطِ حمل

اپ ڈیٹ 19 فروری 2019
کم قیمت ہونے کے باوجود محض 35 فیصد پاکستانی خواتین مانع حمل طریقوں کا استعمال کرتی ہیں—فوٹو:شٹر اسٹاک
کم قیمت ہونے کے باوجود محض 35 فیصد پاکستانی خواتین مانع حمل طریقوں کا استعمال کرتی ہیں—فوٹو:شٹر اسٹاک

امریکی تحقیقاتی ادارے گٹ میچر کے مطابق پاکستان میں ہر سال 42 لاکھ حمل میں سے تقریباً نصف حمل غیر متوقع ہوتے ہیں جس میں سے 54 فیصد یا 21 لاکھ سے زائد حمل ضائع کرادیے جاتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 21 لاکھ سے زائد خواتین اسقاطِ حمل کرواتی ہیں کیوں کہ مذہبی رہنما خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کی مخالفت کرتے اور ملک میں مانع حمل طریقوں تک رسائی مشکل جبکہ جنسی معلومات کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایسے ہی 2 راستے پشاور کی غربت اور صحت کے مسائل کا شکار غریب خاتون زمینہ کے سامنے موجود تھے، ایک یہ کہ وہ اپنی جان پر کھیل کر خفیہ اسقاطِ حمل کروالے یا دوسرا کہ اپنے شوہر کے چھٹے بچے کو جنم دے کر زندگی کا خطرہ مول لے اور بالآخر اس نے پہلا راستہ چن لیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاکستان میں سالانہ 22 لاکھ اسقاطِ حمل ہوتے ہیں‘

زمینہ (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ 3 سال قبل جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو ڈاکٹروں نے کہا کہ مجھے اب مزید بچے پیدا نہیں کرنے چاہیئں کیوں کہ اس سے میری صحت کو بہت زیادہ خطرہ ہے۔

لیکن جب بھی میں اپنے شوہر سے اس حوالے سے بات کرتی تو وہ کہتے خدا پر بھروسہ رکھو، 35 سالہ زمینہ کا کہنا تھا کہ ان کے شوہر ایک مذہبی آدمی ہیں اور چاہتے ہیں کہ لڑکوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔

ایک دہائی قبل ’2 بچے ہی اچھے‘ کے نام سے خاندانی منصوبہ بندی کی مہم چلائی گئی تھی جسے نہ صرف مذہبی رہنماؤں بلکہ قوم پرستوں نے بھی مسترد کردیا تھا کیوں کہ وہ بھارت کی ایک ارب 20 کروڑ کی آبادی کے مقابلے پاکستانی آبادی میں بھی اضافہ چاہتے تھے۔

مزید پڑھیں: مانع حمل ادویات کا استعمال ذہن کے لیے نقصان دہ؟

چنانچہ اب 20 کروڑ 70 لاکھ کی ملکی آبادی سے وسائل کی گنجائش میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے جبکہ ماہرین خبردار کرچکے ہیں کہ مستقبل میں مزید پریشانیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔

زمینہ نے اپنی آب بیتی سناتے ہوئے کہا کہ ’وہ جب بھی شوہر سے خاندانی منصوبہ بندی کرنے کا کہتیں وہ انکار کردیتے اور جب میں نے انہیں اپنی صحت کی خرابی کا بتاتے ہوئے کہا کہ میں مزید بچے پیدا نہیں کرسکتی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر میری ماں 9 بچے پیدا کرنے کے باوجود نہیں مری تو تم بھی زندہ رہو گی‘۔

واضح رہے کہ پاکستان میں اسقاطِ حمل کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب ماں کی صحت کو خطرہ لاحق ہو لیکن بہت سے ڈاکٹر اپنے ضمیر کے تحت ایسا کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’2030 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن جائے گا ‘

جس کے نتیجے میں خواتین کو غیر قانونی طریقوں سے اسقاط حمل کروانا پڑتا ہے جبکہ حکام نے اس حوالے سے اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔

اس سلسلے میں جسم میں مائزوپروسٹل نامی دوا داخل کرنے کے طریقے پر سب سے زیادہ عمل کیا جاتا ہے جو السر کے علاج میں استعمال ہوتی ہے، اس سے ایمبریو (جو بچہ ابھی مکمل بنا نہ ہو) باہر آجاتا ہے لیکن اس سے ماں کی صحت کو شدید قسم کی پیچیدگیاں لاحق ہوسکتی ہیں۔

اس ضمن میں ’اویئر گرل‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کام کررہی ہے جہاں ان افراد کو معلومات فراہم کی جاتی ہیں جو اس کی ہاٹ لائن پر کال کر کے اس قسم کی ادویات کے محفوظ استعمال اور ایمرجنسی یا پروفیشنل مدد کب لی جانی چاہیے، کے بارے میں مکمل رہنمائی کرتے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کم قیمت ہونے کے باوجود محض 35 فیصد پاکستانی خواتین مانع حمل طریقوں کا استعمال کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو بڑھتی آبادی سے کن مسائل کا سامنا ہے؟

اس حوالے سے اویئر گرل کی رکن عائشہ کا کہنا تھا کہ ’انہیں ہر ماہ 350 کالز موصول ہوتی ہیں جس میں زیادہ تر خواتین حمل روکنے کے حوالے سے انتہائی کم معلومات رکھتی ہیں،۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میرے کام سے خواتین کی زندگی بچ رہی ہے کیوں کہ جب وہ کال کرتی ہیں اس وقت وہ حمل ضائع کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتی ہیں، اس لیے انہیں اس بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔

2012 میں اسی ادارے کے تحت کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 22 لاکھ 50 ہزار کے قریب اسقاط حمل کیے گئے جس میں سے 6 لاکھ 23 ہزار خواتین کو اسقاطِ حمل کروانے کی وجہ سے مختلف پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں