‘بھارتی طیاروں کو گرانے کے بعد امریکا نے ثالثی کا کردار ادا کیا‘

02 مارچ 2019
پاک فضائیہ نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر 2 بھارتی طیاروں کو مار گرایا تھا — فوٹو: اے ایف پی
پاک فضائیہ نے سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر 2 بھارتی طیاروں کو مار گرایا تھا — فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: وائٹ ہاؤس کے ایک سابق عہدیدار نے کہا ہے کہ بھارتی ایئرفورس (آئی اے ایف) کے 2 لڑاکا طیارے گرانے کے عمل نے امریکا کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ جنوبی ایشیا کی 2 جوہری ریاستوں کے درمیاں خطرناک محاذ آرائی کے خاتمے کے لیے پاکستان سے دوبارہ رابطہ قائم کرے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں وائٹ ہاؤس نیشنل سیکیورٹی کونسل میں پاکستان اور افغانستان کے لیے ڈائریکٹر رہنے والی شمیلہ این چوہدری کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی فوج کی جانب سے بھارتی ایئرفورس کے 2 طیارے گرانے اور ایک بھارتی پائلٹ حراست میں لیے جانے کے بعد امریکا نے اپنے دفاع کے بیان کو واپس لے لیا‘۔

انہوں نے امریکی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جوہن بولٹن کے اس حالیہ بیان کا حوالہ دیا جو انہوں نے 14 فروری کے پلوامہ حملے کے بعد دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکا ’بھارت کا اپنا دفاع رکھنے کے حق کی حمایت‘ کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: پاک فضائیہ نے 2 بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے، پاک فوج

کانگریس کے اخبار دی ہل کے لیے لکھی گئی ایک تحریر میں شمیلہ این چوہدری نے لکھا کہ پاکستان کی جانب سے 2 بھارتی فضائیہ کے طیارے گرانے کے بعد امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ ’تحمل کا مظاہرہ کریں اور کسی بھی صورت میں کشیدگی سے گریز کریں‘۔

بعد ازاں مختلف امریکی قانون سازوں نے مائیک پومپیو کی جانب سے پاکستان اور بھارت کو صورتحال کو ٹھیک کرنے کی اپیل کی حمایت کی۔

خارجہ امور پر ایوان کی کمیٹی کے چیئرمین کانگریس رکن ایلیوٹ ایل انجیل کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی جانب سے ونگ کمانڈر ابھی نندن کو بھارت کے حوالے کرنا اس تنازع کے حل کے لیے بامعنی مذاکرات کو شروع کرنے کی جانب پہلا قدم ہے‘۔

امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات سے متعلق کمیٹی میں ایک سینئر ڈیموکریٹ سینیٹر باب مینڈیز نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بھڑتی کشیدگی کے تناظر میں ٹرمپ انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ’جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے فروغ‘ کے لیے ایک متحرک کردار ادا کرے۔

انہوں نے امریکی صدر کی انتظامیہ کو یاد دلایا کہ ’جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کے لیے سابق ریپبلکن اور ڈیموکریٹ انتظامیہ نے اعلیٰ سطح پر تعمیری کردار ادا کیا تھا‘۔

کانگریس رکن ایلیوٹ ایل انجیل کا کہنا تھا کہ کسی غلط اندازے کے متحمل ہونے سے گریز کرنے کے لیے وزیر اعظم عمران خان کا ’ڈر ٹھیک ہے، پاکستانی رہنماؤں کو جیش محمد کے خلاف واضح طور پر ضرور کارروائی کرنی چاہیے‘۔

سینیٹر مینڈیز نے مزید کشیدگی کے خطرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اسلام آباد اور نئی دہلی پر زور دیتا ہوں کہ وہ فوری طور پر مذاکرات کریں تاکہ اس کشیدگی کو کم کیا جاسکے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ٹارگٹ کی تلاش میں تھا، پاک فضائیہ نے میراطیارہ مارگرایا، بھارتی پائلٹ کا دوسرا بیان

قبل ازیں مائیک پومپیو نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستانی اور بھارتی رہنماؤں سے بات چیت میں ’اچھا وقت گزرا‘ اور ’ہر ملک کی حوصلہ افزائی کہ وہ کوئی ایسا ایکشن نہ لے جس سے کشیدگی بڑھے اور خطرات پیدا ہوں‘۔

ادھر مختلف امریکی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا کہ واشنگٹن روزانہ کی بنیاد پر اسلام آباد اور نئی دہلی سے رابطے قائم کرنے کی کوشش کر رہا اور امریکی فوج اس امن کی کوششوں کے پیچھے ہے۔

تاہم جنوبی ایشیا کے لیے امریکا کی سابق ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ الیسا ایرس نے نیشنل پبلک ریڈیو کو بتایا امریکا کا وہ اثر و رسوخ نہیں جو کارگل تنازع کے درمیان انجام دیا تھا، جب پاکستان اس کا قریبی ساتھی تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

zaheer yousaf Mar 02, 2019 12:20pm
it is a wonderful act.And hope that it will help shape a better future of the regions billions of people.