کراچی: میڈیکل کی طالبہ پولیس کی گولی سے جاں بحق ہوئی، رپورٹ

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2019
پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا — فائل فوٹو/اے ایف پی
پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا — فائل فوٹو/اے ایف پی

کراچی: نارتھ کراچی میں پولیس اور مبینہ ڈکیتوں کے درمیان مقابلے کی زد میں آنے والی میڈیکل کی طالبہ کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ نمرا ’پولیس کی گولی‘ لگنے سے جاں بحق ہوئی۔

معاملے کی تحقیقات سے واقف ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جائے وقوع سے حاصل کی جانے والی گولیوں کی فرانزک رپورٹ، دیگر شواہد اور عینی شاہدین کے بیانات کی روشنی میں پولیس کی تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ڈکیتوں کی تعاقب کے دوران نمرا کی موت پولیس ٹیم کی گولی لگنے سے ہوئی۔'

مزید پڑھیں: کراچی: پولیس مقابلے میں 10 سالہ بچی کی ہلاکت پر چیف جسٹس کا ازخود نوٹس

خیال رہے کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر احمد شیخ نے معاملے کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی سی آئی اے عارف حنیف کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دی تھی جس میں ڈی آئی جی ویسٹ ڈاکٹر امین یوسفزئی، ایس ایس پی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نعمان صدیقی اور ایس ایس پی ٹریفک ڈاکٹر سمیع اللہ بھی شامل ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ ڈکیتوں کا پیچھا کرنے والی پولیس ٹیم نے متعدد گولیاں چلائیں جس میں سے ایک گولی طالبہ کو لگی جو رکشہ میں سوار تھی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ جس گولی سے طالبہ کی موت ہوئی وہ تقریباً ہزار گز کے فاصلے سے چلائی گئی، اس وقت قدرے اندھیرا تھا اور جگہ سنسان تھی۔

ہلاک ہونے والا مشتبہ ڈاکو اور اس کے زخمی ساتھی نے پولیس پر تقریباً 7 سے زائد گولیاں چلائیں جس کے بعد پولیس نے بھی جوابی فائرنگ کی اور حادثہ پیش آگیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: پولیس کا 'ڈکیتوں' سے مقابلہ، میڈیکل کی طالبہ جاں بحق

ذرائع نے کہا کہ ’کمیٹی کی انکوائری رپورٹ کو جلد عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا تاہم رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ لڑکی کی موت پولیس کی گولی سے ہوئی اور فائرنگ کا یہ واقعہ محض حادثہ اور غیر ارادی تھا‘۔

واضح رہے کہ کراچی پولیس نے نارتھ کراچی میں پولیس اور مبینہ ڈکیتوں کے درمیان مقابلے کے دوران فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہونے والی طالبہ کے قتل کا مقدمہ 4 مشتبہ ڈکیتوں کے خلاف درج کرلیا تھا۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے میڈیکل کی طالبہ کے جاں بحق ہونے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو نمرا کے انتقال کی وجوہات کی تفتیش کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔

بعد ازاں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کانسٹیبل عدنان نارتھ ناظم آباد بلاک 'کے' میں قائم فاروق اعظم مسجد کے قریب دیگر اہلکاروں کے ساتھ گشت پر مامور تھے جب انہوں نے 2 موٹر سائیکلوں پر سواروں کو مشکوک جان کر رکنے کا اشارہ کیا لیکن مشتبہ افراد نے رکنے کے بجائے پولیس پر فائرنگ کی اور فرار ہونے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا نوجوان بے گناہ نکلا

رپورٹ کے مطابق پولیس نے ملزمان کا تعاقب کیا لیکن ان میں سے ایک موٹر سائیکل پر سوار ملزمان سخی حسن چورنگی کے قریب ٹریفک کے باعث فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اہلکاروں نے دوسری موٹر سائیکل کا تعاقب جاری رکھا جو انڈا موڑ کی طرف گئی تھی جہاں ایک مرتبہ پھر ملزمان کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

دونوں ملزمان فائرنگ کے دوران زخمی ہوگئے تھے، بعد ازاں ان میں سے ایک زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا تھا۔

پولیس نے دونوں مشتبہ ملزمان کے قبضے سے 2 پستول بھی برآمد کیے تھے۔

رپورٹ کے مطابق بعد ازاں پولیس کو ایک لڑکی ملی جو فائرنگ کے تبادلے کے دوران زد میں آکر شدید زخمی ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں پولیس مقابلہ: 5 دہشت گرد ہلاک

پولیس نے دعویٰ کیا کہ طالبہ کو لگنے والی گولی ڈکیتوں کی جانب سے چلائی گئی تھی جبکہ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں پتہ چلا کہ گولی سر پر لگی تھی جو ’انتہائی تیز رفتار ہتھیار‘ یا رائفل سے فائر کی گئی تھی جو کہ عموماً پولیس کے استعمال میں ہوتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق ڈکیتوں کی جانب سے عام طور پر استعمال کی جانے والی پستول کو ’انتہائی تیز رفتار‘ ہتھیار قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں