کراچی: پولیس کا 'ڈکیتوں' سے مقابلہ، میڈیکل کی طالبہ جاں بحق

اپ ڈیٹ 23 فروری 2019
شارع نور جہاں پولیس کے مطابق واقعے میں ایک ڈکیت بھی ہلاک ہوا — فائل فوٹو/ اے ایف پی
شارع نور جہاں پولیس کے مطابق واقعے میں ایک ڈکیت بھی ہلاک ہوا — فائل فوٹو/ اے ایف پی

کراچی کے علاقے نارتھ کراچی میں پولیس اور مبینہ ڈکیتوں کے درمیان ہونے والے مقابلے کی زد میں آکر میڈیکل کی 20 سالہ طالبہ جاں بحق ہوگئیں جبکہ پولیس نے تفتیش کے لیے انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دے دی۔

شارع نور جہاں پولیس کے مطابق واقعے میں ایک ڈکیت بھی ہلاک ہوا۔

پولیس نے واقعے کے حوالے سے بتایا کہ پولیس گزشتہ روز ڈکیتی کرنے والے ملزمان کا پیچھا کررہی تھی، اس دوران انڈا موڑ کے قریب پولیس اور مبینہ ملزمان کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کی زد میں آکر 20 سالہ طالبہ بھی زخمی ہوئیں اور ان کے علاوہ دو مبینہ ملزمان بھی زخمی ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی: پولیس مقابلے میں 10 سالہ بچی کی ہلاکت پر چیف جسٹس کا ازخود نوٹس

پولیس کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ایک مبینہ ملزم 25 سالہ ریاض ملک دم توڑ گیا جبکہ پولیس نے دعویٰ کیا کہ طالبہ کو لگنے والی گولی ڈکیتوں کی جانب سے چلائی گئی تھی۔

متقولہ کی شناخت نمرہ بیگ کے نام سے ہوئی۔

جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق واقعے کے فوری بعد زخمی طالبہ کو عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں موجود ڈاکٹروں نے انہیں جناح ہسپتال منتقل کرنے کی ہدایت کی اور یہاں پہنچنے کے بعد دوران علاج دم توڑ گئیں۔

ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ مقتولہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس کی طالبہ تھی۔

مقتولہ کے اہل خانہ کا موقف

مقتولہ نمرہ بیگ کے چچا ذکی احمد نے جناح ہسپتال کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'حالات' سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی موت پولیس کی فائرنگ سے ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا نوجوان بے گناہ نکلا

انہوں نے غیر جانب دار انکوائری کا مطالبہ کردیا۔

ڈاکٹروں کی جانب سے مقتولہ کے پوسٹ مارٹم میں زیادہ وقت لگانے پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس نے مقابلے کے دوران نمرہ کے زخمی ہونے سے متعلق ہمیں آگاہ نہیں کیا۔

مقتولہ کے اہل خانہ کو ٹی وی چینلز پر چلنے والی خبر سے معلوم ہوا جہاں انہوں نے نمرہ کا نام سنا جس کے بعد پولیس اور ہسپتال انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا۔

مقتولہ کے لواحقین نے پولیس اور ہسپتال انتظامیہ کے موقف میں تضاد پر متعلقہ حکام کو نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

ڈاکٹروں کا بیان

جناح ہسپتال کے ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر شیراز علی خواجہ نے ڈان کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم میں پتہ چلا کہ گولی سر پر لگی تھی جس سے دماغ کو نقصان پہنچا تھا۔

پولیس سرجن کا کہنا تھا کہ گولی کو 'انتہائی تیز رفتار ہتھیار' یا 'رائفل' سے فائر کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر شیراز علی خواجہ کا کہنا تھا کہ مقتولہ میڈیکل کی سال اول کی طالبہ تھیں۔

انکوائری کمیٹی تشکیل

پولیس ترجمان کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی ڈاکٹر امیر شیخ نے نارتھ کراچی میں پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے طالبہ کی موت کی تحقیقات کے لیے ڈی آئی جی سی آئی اے عارف حنیف کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دے دی۔

انچارج ایس آئی یو ایس ایس پی نعمان صدیقی اور ایس پی ٹریفک سمیع اللہ سومرو کمیٹی کے ممبران میں شامل ہیں۔

کمیٹی کے چیئرمین عارف حنیف کو تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ 3 دن میں جمع کرانے کا حکم دیا گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں