حکومت کا عسکری تنظیموں کے خلاف حتمی کارروائی کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2019
موجودہ سیاسی اتفاق رائے پاکستان کو مثبت سمت گامزن کرنے کا ایک بہترین موقع ہے — فوٹو: رائٹرز فائل
موجودہ سیاسی اتفاق رائے پاکستان کو مثبت سمت گامزن کرنے کا ایک بہترین موقع ہے — فوٹو: رائٹرز فائل

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے ملک میں شدت پسند اور عسکری تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے آغاز کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے صحافیوں کو دی جانی والی ایک خصوصی بریفنگ میں بتایا گیا کہ جیسے ہی اس سلسلے میں پیش رفت ہوگی اس کے اثرات خودبخود ظاہر ہوجائیں گے۔

انتہا پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کی تصدیق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ڈان نیوز کے پروگرام ’دو رائے‘ میں بھی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وزارت داخلہ کا نیشنل ایکشن پلان کی تشکیل نو کا منصوبہ

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے سیاسی اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کے تحت تمام عسکری تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

تاہم وزیر اطلاعات نے عسکری تنظیموں مثلاً جیشِ محمد (جس پر مبینہ طور پر پلوامہ میں ہونے والے بھارتی فورسز پر حملے کا الزام ہے)، جماعت الدعوۃ اور اس کی فلاحی تنظیم فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن کے خلاف کارروائی کا کوئی وقت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس کا فیصلہ سیکیورٹی فورسز کریں گی۔

واضح رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے 21 فروری کو ہونے والے اجلاس میں ’کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا‘، اس کے ساتھ جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن پر دوبارہ پابندی لگانے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔

اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے معاشرے سے انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے خاتمے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ریاست کو شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہونے دیں گے‘۔

اہم بات یہ ہے کہ ذرائع نے اس بات کو مسترد کیا کہ یہ فیصلہ بھارت میں ہونے والے پلوامہ حملے کے بعد کسی دباؤ کی بنا پر کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ 14 فروری کو ہونے والے حملے سے بہت پہلے کیا جاچکا تھا لیکن یہ منظرِ عام پر بعد میں آیا۔

اس کے ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی جانب سے دیے گئے ڈوزیئر میں اس کی جانب سے پاکستان پر عسکری تنظیموں کی پشت پناہی کا الزام دہرانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ کارروائی اپنے قومی مفاد میں کررہے ہیں، ہمیں چیزیں درست کرنے کی ضرورت ہے، ہم اس مسئلے کو آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے نہیں چھوڑ سکتے‘۔

مزید پڑھیں: نیشنل ایکشن پلان کے تحت 8 ہزار 'دہشتگرد' گرفتار

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’موجودہ سیاسی اتفاق رائے پاکستان کو مثبت سمت گامزن کرنے کا ایک بہترین موقع ہے‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کارروائی سے فنانشل ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے اٹھائے گئے ان مسائل سے نمٹنے میں بھی مدد ملے گی جن کی گزشتہ ماہ ہونے والے اجلاس میں دوبارہ نشاندہی کی گئی تھی۔

بریفنگ میں عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ ’جیشِ محمد، جماعت الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے، اس موقع پر ہونے والی گفتگو سے یہ بات واضح تھی کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی جانب سے جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر پر پابندی لگانے کے موقف پر بھی نظِر ثانی کرے گا۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی فردِ واحد پاکستان سے زیادہ اہم نہیں‘ جبکہ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’پاکستان اسے انا کا مسئلہ نہیں بنائے گا‘، اس کے علاوہ مسعود اظہر پر پابندی کے سلسلے میں چین کی جانب سے تکنیکی رکاوٹ ڈالنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ ہم اپنے دوستوں کو آزمائش میں نہیں ڈالیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ’چین نے مسعود اظہر پر پابندی کی بھارتی کوشش پھر ناکام بنادی‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا تھا جس کے لیے حکمتِ عملی میں تبدیلی ضروری تھی اور اس طرح کے اقدامات کے لیے وقت درکار ہوتا ہے‘۔

اس کے ساتھ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’مذکورہ تنظیموں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا وقت آگیا ہے‘۔

بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مفاد میں تھا کہ اس قسم کی محاذ آرائی سے گریز کیا جائے جبکہ بھارت کا معاملہ مختلف ہے کیوں کہ اس وقت کشیدگی کم کرنے کی صورت میں بھارتی وزیراعظم کو سیاسی قیمت چکانا پڑے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں