جھوٹی گواہی کے شکار مزید 2 ملزمان 12 سال بعد بری

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2019
چیف جسٹس کے مطابق گواہی میں اتنا جھوٹ شامل تھا کہ یقین کرنا مشکل لگا — فائل فوٹو/ شٹر اسٹاک
چیف جسٹس کے مطابق گواہی میں اتنا جھوٹ شامل تھا کہ یقین کرنا مشکل لگا — فائل فوٹو/ شٹر اسٹاک

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہی سے متعلق مزید ایک کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ مرنے والا اور مارنے والا سب فارغ ہوجائیں گے، مقدمے میں قصور عدالت کا نہیں گواہ کا ہوگا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے قتل کے مقدمے کی سماعت کی۔

دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ عبداللہ ناصر اور طاہرعبداللہ پر 2007 میں محمد صدیق کے قتل کا الزام تھا، ٹرائل کورٹ نے دونوں ملزمان کو سزائے موت دی اور ہائیکورٹ نے سزا عمر قید میں بدل دی۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: 52 مرتبہ سزائے موت پانے والا شخص بری

عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ واقعے کے دوران عبدالمجید زخمی ہوا جس کے مطابق وہ آدھا گھنٹہ زمین پر پڑا رہا، گواہ کی اس بات پریقین کرنا ناممکن ہے کیوں کہ گواہ نے عدالت میں کچھ اور بیان دیا، جس میں قتل کا محرک زمین بتایا گیا جبکہ ریکارڈ میں واضح نہیں تھا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ مرنے والا اور مارنے والا سب فارغ ہوجائیں گے قصور عدالت کا نہیں گواہ کا ہوگا، گواہی میں اتنا جھوٹ شامل تھا کہ یقین کرنا مشکل لگا۔

عدالت نے گواہوں کے بیانات میں تضاد پر 12 سال بعد دونوں ملزمان کو بری کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: قتل کا ملزم 10 سال بعد بری، چیف جسٹس کا قانونی سقم پر اظہار برہمی

یکم مارچ کو سپریم کورٹ نے 52 مرتبہ سزائے موت پانے والے ملزم صوفی بابا کو بری کردیا تھا۔

اس سے قبل 12 فروری کو سپریم کورٹ نے قتل کے الزام میں عمر قید کا سامنا کرنے والے ملزم اسفند یار کو جرم ثابت نہ ہونے پر 10 سال بعد بری کردیا اور مجسٹریٹ کے رویے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے، انہیں ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں