بھارتی ایئر چیف بالاکوٹ حملے میں ہلاکتوں سے متعلق واضح جواب نہ دے سکے

اپ ڈیٹ 04 مارچ 2019
بھارتی فضائیہ کے سربراہ بالاکوٹ حملے کے بعد پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئے—فوٹو: بزنس اسٹینڈرڈ
بھارتی فضائیہ کے سربراہ بالاکوٹ حملے کے بعد پہلی مرتبہ میڈیا کے سامنے آئے—فوٹو: بزنس اسٹینڈرڈ

بھارت کی ایئرفورس کے سربراہ برندر سنگھ دھانوا پاکستان کے علاقے بالاکوٹ میں فضائی حملے سے ہونے والے ’جانی نقصان‘ سے متعلق کیے گئے دعوے پر کوئی واضح جواب نہ دے سکے اور یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ بھارتی فضائیہ ’یہ نہیں گنتی کہ کتنے لوگ مارے گئے‘۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق بھارتی فضائیہ کے سربراہ کی جانب سے یہ جواب کومبٹور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوال پر سامنے آیا۔

برندر سنگھ دھانوا نے کہا کہ بھارت کی ایئرفورس کا یہ کام نہیں کہ وہ گنے کہ کتنے لوگ مارے گئے،’ یہ جواب حکومت کی طرف سے سامنے آئے گا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایئرفورس اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ بتائے کہ کتنے لوگ اندر تھے، ہم انسانی جانی نقصان کی گنتی نہیں کرتے‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی 'جوابی کارروائی' میں جے ایف-17طیارہ استعمال ہوا، رپورٹ

واضح رہے کہ یہ بیان بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر امت شاہ کے اس دعوے کے بعد سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بالاکوٹ میں ’جیش محمد کے تربیتی کیمپ‘ پر فضائی حملے کے دوران ’250 سے زیادہ دہشت گرد‘ ہلاک ہوئے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ بھارتی فضائیہ نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تاہم پاک فضائیہ کے بروقت ردعمل نے اسے ناکام بنا دیا اور بھارتی طیارے جلدی میں اپنے پے لوڈ گرا کر چلے گئے۔

پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

تاہم اس معاملے پر بھارتی میڈیا کی جانب سے پروپیگنڈا شروع کردیا گیا تھا اور اس فضائی حملے کے دوران 300 سے زائد افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا جارہا تھا، تاہم جب آج اس معاملے پر بھارتی فضائیہ کے سربراہ سامنے آئے تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔

وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ بھارتی ایئر فورس نے ’ہدف کو نشانہ‘ بنایا تھا ورنہ کیوں (پاکستان) جواب دیتا‘، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے جنگل میں بم گرائے ہوتے تو جواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔

تاہم بھارتی فضائیہ کے سربراہ یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے کہ بھارت نے پاکستان کی سرزمین پر ایک غیر متنازع علاقے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملے کی کوشش کی۔

پریس کانفرنس کے دوران برندر سنگھ دھانوا اس بات پر بھی مزید بات کرنے سے انکار کرتے رہے، جسے انہوں نے ’جاری آپریشن‘ قرار دیا تھا، وہ کہتے رہے کہ ’ہم جاری آپریشن پر کوئی بات نہیں کریں گے، ایک مگ-21 بائیسن قابل، اپ گریڈڈ، بہتر ہتھیار کا نظام اور بہتر ریڈار ہے‘۔

اس موقع پر جب ان سے پاکستان کی جانب سے گرفتار اور پھر رہا کیے گئے بھارتی پائلٹ ابھی نندن ورتھمان کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اگر وہ جلد ٹھیک ہوگا تو وہ لڑاکا طیارہ اڑائے گا، ’ہم پائلٹ کی طبی صحت کے ساتھ کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے‘۔

خیال رہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر پاک فضائیہ نے دفاع کرتے ہوئے 2 بھارتی طیاروں کو مار گرایا تھا جبکہ ایک بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا تھا، جسے بعد ازاں جذبہ خیر سگالی کے تحت 2 روز بعد رہا کردیا گیا تھا۔

پاکستان کی جانب سے 27 فروری کو جو 2 بھارتی طیارے گرائے گئے تھے اس میں کم از کم ایک مگ-21 بائسن تھا، اس نقصان نے بھارتی وزیر اعظم نریند مودی کو سیخ پا کردیا تھا اور وہ یہ کہتے نظر آئے تھے کہ اگر بھارت نے اپنی ایئرفورس میں رافیل لڑاکا طیارہ شامل کیا ہوتا تو اس لڑائی کا نتیجہ مختلف ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: پاک فضائیہ نے 2 بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے، پاک فوج

قبل ازیں بالاکوٹ کے ’فضائی حملے‘ کے بعد ایک مختصر سی پریس کانفرنس میں بھارت کے سیکریٹری خارجہ وی کے گوکھلے نے دعویٰ کیا تھا کہ ’فضائی حملے کے دوران بالاکوٹ میں جیش محمد کا تربیتی کیمپ تباہ کیا اور ’بڑی تعداد میں جیش محمد کے لوگ مارے گئے‘، تاہم وہ کوئی تعداد نہیں بتا سکے اور نہ ہی صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیے۔

اسی طرح 28 فروری کو بھارت کی تینوں مسلح افواج کے نمائندگان کی جانب سے جب میڈیا سے بات کی گئی تو وہ بھی جانی نقصان کے بارے میں کوئی تعداد نہیں دے سکے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں ایئر وائس مارشل آر۔جی۔ کے کپور نے کہا تھا کہ ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں بتانا قبل از وقت ہوگا اور یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ثبوت سامنے لانا چاہتی ہے یا نہیں۔

دوسری جانب بھارت کے ان بے بنیاد دعووں پر بھارتی عوام بھی سوال اٹھانے لگے ہیں اور سابق بھارتی کرکٹر اور موجودہ سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو نے ٹوئٹر پر سوال کیا کہ ’300 دہشت گرد مرے، ہاں یا نہیں؟، پھر اس کا مقصد کیا تھا؟ کیا آپ دہشت گرد یا درختوں کو تباہ کر رہے تھے؟ کیا یہ انتخابی چال تھی؟

یاد رہے کہ دونوں ممالک کے دوران یہ حالیہ کشیدگی 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں ایک حملے کے دوران 44 بھارتی پیراملٹری فورسز کے اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد پیدا ہوئی تھی۔

اس حملے کے فوری بعد روایتی طریقہ اپناتے ہوئے بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام لگانا شروع کردیا تھا جبکہ پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے قابل عمل معلومات کے تبادلے پر تعاون کی پیش کش کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں