ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا ایسا فارمیٹ ہے جس میں پلک جھپکنے میں میچ کا رُخ ہی بدل جاتا ہے۔ اگر کسی کو اس بات پر یقین نہیں تھا تو کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مابین کھیلے گئے میچ کے بعد تو ضرور آگیا ہوگا۔ بھلا کس نے سوچا ہوگا کہ کوئٹہ 10 گیندوں پر درکار صرف 14 رنز بھی نہیں بنا پائے گا حالانکہ اس کی 7 وکٹیں بھی باقی تھیں اور میچ کا فیصلہ صرف 1 رنز سے ہوگا؟

یہ کہا جاسکتا ہے کہ کراچی کی کامیابی میں شاید اس کی کارکردگی کا اتنا بڑا ہاتھ نہیں تھا، جتنا اس کی قسمت اور گلیڈی ایٹرز کی غائب دماغی کا تھا۔ وجہ جو بھی ہوم گراؤنڈ نیشنل اسٹیڈیم پر کراچی کی کامیابی میدان میں موجود لگ بھگ 35 ہزار تماشائیوں کے لیے زندگی کے یادگار ترین دنوں میں سے ایک تھی۔

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر
—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

کوئٹہ کے لیے میچ جیتنا بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، وہ 3 اوورز میں 46 رنز بنا چکا تھا اور اسے آخری 6 گیندوں پر صرف 5 رنز کی ضرورت تھی۔ آخری اوور میں گیند بھی عثمان شنواری کے ہاتھ میں تھی کہ جنہیں پچھلے اوور میں کوئٹہ کے بلے باز 22 رنز مار چکے تھے۔ پھر ایسا کیا ہوا؟ یہی کہہ سکتے کہ گلیڈی ایٹرز کی غائب دماغی تھی۔

آخری اوور میں سب سے پہلے احمد شہزاد کی توجہ جیت سے پہلے اپنی سنچری کی طرف گئی۔ پہلی گیند پر انور علی کے شاٹ پر 2 رنز بن سکتے تھے لیکن احمد شہزاد نے صرف ایک رن پر اکتفا کیا۔ شاید اس لیے کہ میچ تو گرفت میں ہے ہی، کامیابی کے ساتھ سنچری بھی ہوجائے تو مزا آجائے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ 99 رنز پر کھیلنے والے احمد نے فاتحانہ شاٹ لگانے کی کوشش کی اور مڈ آف پر کیچ دے گئے اور یہیں سے میچ نے پلٹا کھا لیا۔

اگلی گیند پر انور علی نے بھی وہی غلطی کی، جو احمد شہزاد سے ہوئی کہ میچ کو اسی گیند پر ختم کرنا ہے۔ بال آئی اور انہوں نے اندھا دھند بلّا گھما دیا۔ فاتحانہ باؤنڈری تو نہ ملی لیکن گیند بلّے کا باہری کنارہ لیتی ہوئی سیدھا وکٹ کیپر کے ہاتھوں میں ضرور چلی گئی۔

پھر محمد نواز نے ایک رن دوڑ کر اسٹرائیک کپتان سرفراز احمد کو دی لیکن اب قسمت کراچی کے ساتھ تھی۔ ایک اٹھتی ہوئی گیند 'سیفی' کے بلّے کا اندرونی کنارہ لیتی ہوئی وکٹوں میں گھس گئی۔ معاملہ آخری گیند پر 3 رنز تک چلا گیا تھا اور 4 گیندوں پر 3 وکٹیں لینے والے عثمان شنواری مقابلے پر چھا چکے تھے، انہوں نے آخری گیند پر بھی کوئی غلطی نہیں کی، کوئٹہ صرف ایک رن بنا پایا اور یوں کراچی نے صرف مقابلہ ہی نہیں جیتا بلکہ اگلے مرحلے تک رسائی بھی حاصل کرلی اور روایتی حریف لاہور قلندرز کو بھی ٹورنامنٹ سے باہر کردیا۔ یعنی آخری گیند نے بہت سارے فیصلے کردیے۔

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا، لیکن کامیابی میزبانوں کے نصیب میں تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئٹہ نے آخری میچ سمجھتے ہوئے دوسرے درجے کی ٹیم میدان میں اتاری۔ نمبر ایک پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے گلیڈی ایٹرز نے پوری طاقت میدان میں جھونک دی اور آخری گیند تک پورا زور لگایا کہ کامیابی حاصل ہوجائے، لیکن میدان میں موجود ہزاروں تماشائیوں کی طرح قسمت بھی کراچی کے ساتھ تھی۔

اس حیران کن کامیابی کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کراچی کو ہوم کراؤڈ کی وجہ سے اتنا حوصلہ ملا کہ اس نے شکست کے جبڑوں سے فتح چھین لی۔ آخری اوور تک میدان میں موجود تماشائیوں کی طرف سے کنگز کو بھرپور سپورٹ ملتی رہی یہاں تک کہ 3 بہت بُرے اوورز پھینکنے کے بعد بھی۔ شاید یہی دیوانہ وار حمایت تھی جس کی بدولت کراچی نے ناقابلِ یقین کامیابی حاصل کی۔

میچ میں بہترین کھلاڑی قرار پانے والے عثمان شنواری
میچ میں بہترین کھلاڑی قرار پانے والے عثمان شنواری

جیت بہت سے عیب چھپا دیتی ہے، اور یوں کراچی کی خامیاں بھی چھپ گئی ہیں حالانکہ اس میچ میں کوئٹہ سے بھی زیادہ غلطیاں کراچی کنگز نے کیں۔ کوئٹہ تو لمحے بھر کے لیے چُوکا اور سزا پائی لیکن کراچی نے کئی مراحل پر کمزوری دکھائی جیسا کہ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 9 اوورز میں صرف 69 رنز بنائے۔ پہلی وکٹ پر بابر اعظم اور کولن منرو کی کارکردگی بہت مایوس کن تھی۔ بابر نے 56 رنز بنانے کے لیے 46 گیندیں استعمال کرلیں یعنی تقریباً 8 اوورز جبکہ منرو نے صرف 30 رنز کی خاطر 26 گیندیں کھیل ڈالیں۔ یعنی ان دونوں بلے بازوں نے 12 اوورز کھیل کر ٹیم کو صرف 86 رنز دیے۔ یہ افتخار احمد کی دھواں دار بیٹنگ تھی کہ کراچی نے 190 رنز جیسا قابلِ دفاع ٹوٹل کھڑا کردیا ورنہ امکان نظر نہ آتا تھا۔

اس لیے میزبان کراچی کو اب سنبھل کر کھیلنا ہوگا کیونکہ اب ان کے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کراچی ہر سیزن میں پلے آف تک پہنچتا ہے اور مایوس کن کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوجاتا ہے۔ لیکن اس مرتبہ انہیں تماشائیوں کی بہت زیادہ سپورٹ ملے گی اور شاید یہ فیکٹر کراچی کے بہت کم آئے۔

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر
—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر
—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

ویسے ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ پہلے مرحلے کے آخری مقابلے یعنی کراچی-پشاور ٹکراؤ کے بعد کیا صورت حال بنتی ہے؟ اندازہ تو یہی ہے کہ نتیجہ کچھ بھی آئے کوئٹہ اور پشاور اوّلین 2 پوزیشنیں حاصل کریں گے جبکہ اسلام آباد اور کراچی تیسرے اور چوتھے نمبر پر آئیں گے۔ کراچی اگر پشاور کے خلاف جیت بھی جاتا ہے تو نیٹ رن ریٹ کی بنیاد پر اس کا دوسرے نمبر پر آنا بہت مشکل ہے کیونکہ کراچی اور پشاور کے درمیان رن ریٹ کا فرق بہت زیادہ ہے۔

بہرحال، اس سال بھی ہمیں پلے آف مرحلے میں کوئی ’نیا چہرہ‘ نظر نہیں آئے گا، وہی کوئٹہ ہوگا اور پشاور اور وہی اسلام آباد و کراچی۔ لیکن کیا کوئٹہ اور کراچی اس مرتبہ تاریخ بدل سکتے ہیں؟ یہ تو آنے والے مقابلے بتائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں