‘مساجد پر حملے سے 8 برس قبل المناک سانحہ کی تاریخ تازہ ہوگئی‘

اپ ڈیٹ 15 مارچ 2019
مساجد پر حملہ المناک ہے—فوٹو: این زیڈ ہیرلڈ
مساجد پر حملہ المناک ہے—فوٹو: این زیڈ ہیرلڈ

نیوزی لینڈ پولیس ایسوسی ایشن کے صدر نے کرائسٹ چرچ شہر میں مساجد پر حملے کو 8 برس قبل زلزلے کے بعد دوسرا بڑا المناک سانحہ قرار دے دیا۔

این زیڈ ہیرلڈ میں شائع رپورٹ کے مطابق ایسوسی ایشن کے صدر کریس کاہیل نے کہا کہ ’8 برس قبل زلزلے سے تقریباً 185 افراد ہلاک ہو گئے تھےاور خونریزی کے اس واقعہ نے ایک مرتبہ پھر زخم تازہ کردیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: مساجد کے حملہ آور سے یوٹیوب کا سب سے مشہور شخص پریشان

انہوں نے سانحہ کرائسٹ چرچ میں پولیس کی کارکردگی سے متعلق کہا کہ ’جو پولیس اہلکار واقعہ کے بعد وقوعہ پر پہنچے وہ پیشہ ورانہ صلاحیت کے حامل تھے لیکن میرا خیال نہیں کہ پولیس اہلکاروں کو ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے تیار کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مساجد پر حملہ المناک ہے، تمام ہی افسران کے لیے واقعہ پیشہ ورانہ تاریخ میں ایک بڑا اور مشکل ترین مرحلہ ہے‘۔

کریس کاہیل نے کہا کہ ’سانحہ کی نوعیت ایسی ہے کہ تمام وہ افسران جو کسی بھی درجے پر خدمات پیش کررہے ہیں، وہ لازمی طور پر ذہنی آسودگی کے لیے مشاورت کریں‘۔

سانحہ کرائسٹ چرچ میں اپنے عزیز و اقارب سے محروم ہوجانے والی خاتون نے روہانسے لہجے میں کہا کہ ’مساجد پر حملے میں، میں نے اپنے دادا ابو کو کھویا اور اب ان کے بغیر مستقبل کے بارے میں سوچ کر خوفزدہ ہوں‘۔

ون نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے یاسمین علی نے بتایا کہ ’یقین نہیں آتا کہ نیوزی لینڈ میں سنگ دلی کا واقعہ پیش آسکتا ہے جس نے مجھے اپنے قریبی رشتے داروں کی محبت سے محروم کردیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’وہ رشتے دار جنہیں 19 سال سے جانتی تھی، آج وہ نہیں رہے، شہید ہونے والوں میں وہ بھی تھے جو میری منگنی کی تقریب میں شرکت کے لیے آئے تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ میں اب تک ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات

یاسمین علی نے تعجب کا اظہار کیا کہ ’نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ شہر میں چھوٹی چھوٹی کمیونیٹی رہائش پذیر ہیں جو شفقت اور محبت سے رہتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سمجھ نہیں آتا کہ کوئی ہمیں کیوں اس طرح تکلیف پہنچا سکتا ہے، ہم نے آپ کے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا تو کیوں آپ ہمارے سے ایسا برتاو کررہے ہیں‘۔

مساجد میں دہشت گرد حملے

نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں نماز جمعہ سے قبل مسلح حملوں میں 49 افراد جاں بحق جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوئے، حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی میں بم بھی نصب تھے۔

دونوں حملے ملک کے تیسرے بڑے شہر کرائسٹ چرچ میں ہوئے، پولیس نے ایک خاتون سمیت 4 حملہ آوروں کو گرفتار کیا۔

نیوزی لینڈ کی پولیس کے سربراہ مائیک بش نے بتایا کہ ڈینز ایونیو میں واقع مسجد میں 41 افراد، لین ووڈ مسجد میں7 افراد جبکہ ہسپتال منتقل کیے گئے زخمیوں میں سے ایک شخص کی موت کی تصدیق ہوگئی ہے۔

میڈیا سے گفتگو میں مائیک بش نے مزید کہا کہ مسجد میں فائرنگ کی زد میں آنے والے 20 سے زائد زخمی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

خیال رہے کہ جزیرہ نما نیوزی لینڈ کی مجموعی آبادی 42 لاکھ سے زائد ہے جبکہ اس میں ایک فیصد یعنی 40 ہزار کے قریب افراد مسلمان ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں