نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور،کوٹ لکھپت جیل سے رہا

نواز شریف کو سپریم کورٹ کے احکامات ملتے ہی رہا کردیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز
نواز شریف کو سپریم کورٹ کے احکامات ملتے ہی رہا کردیا گیا—فوٹو: ڈان نیوز
العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیر اعظم 7 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں—فائل فوٹو: اے پی پی
العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیر اعظم 7 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں—فائل فوٹو: اے پی پی

سابق وزیراعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے رہا کردیا گیا۔

سابق وزیر اعظم نوازشریف کے استقبال کے لیے لاہور میں کوٹ لکھپت جیل کے باہر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی جہاں کارکنان نواز شریف کے حق میں نعرے لگا رہے اور ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال رہے تھے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کوٹ لکھپت جیل پہنچے تھے اور نواز شریف کے ہمرا جاتی امرا روانہ ہوگئے جہاں کارکنوں کی بڑی تعداد ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ضمانی مچلکے جمع کرانے اور سپریم کورٹ سے جاری روبکار لاہور پہنچانے تک نواز شریف کی رہائی طوالت اختیار کر گئی تاہم روبکار موصول ہوتے ہی انہیں رہا کر دیا گیا۔

روبکار کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا تھا کہ عدالتی روبکار کو قانونی طریقہ کار کے مطابق لاہور بھجوائی گئی ہے۔

مسلم لیگ ن اسلام آباد کے مقامی کارکن نے اپنی زمین کے عوض نواز شریف کے لیے 50، 50 لاکھ کے ضمانتی مچلکے تیار کر لیے تھے جس کو جمع کروا کر نواز شریف کی روبکار حاصل کی گئی تھی۔

نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور، سزا 6 ہفتوں کے لیے معطل

قبل ازیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کو 6 ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے ان کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی، تاہم وہ اس مقررہ میعاد کے دوران بیرون ملک نہیں جاسکیں گے۔

—فوٹو:ڈان نیوز
—فوٹو:ڈان نیوز

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 6 ہفتوں کی ضمانت کی مقررہ میعاد پوری ہونے پر نواز شریف کو سرنڈر کرنا ہوگا، تاہم نواز شریف اس دوران اپنے وسائل سے اپنی مرضی کے معالج سے علاج کرواسکیں گے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے وکیل روسٹرم پر آئے، جہاں سابق وزیر اعظم کے وکیل نے اپنے موکل کی لندن رپورٹ کے حوالے سے تفصیلات عدالت کو بتائیں اور نواز شریف کے غیر ملکی ڈاکٹر لارنس کے خط کی مصدقہ نقل عدالت میں پیش کی.

مزید پڑھیں: نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کا جائزہ لیں گے، چیف جسٹس

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اضافی دستاویز جمع کروائی ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ ڈاکٹر لارنس کا خط ہے۔

وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو انہوں نے کسی ڈاکٹر عدنان کے نام خط لکھا ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ڈاکٹر عدنان نواز شریف کے پرنسپل فزیشن ہیں۔

نواز شریف کے غیر ملکی ڈاکٹر کے خط پر بحث

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کیسے معلوم ہو کہ یہ خط کس نے کس کو لکھا، یہ تو 2 عام لوگوں کے درمیان کی بات چیت ہے، یہ تو آپ نے جمع کرایا تو ہم نے اسے پڑھ لیا، اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میں اپنے کیس میں اس خط کے اوپر انحصار نہیں کر رہا۔

درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میرٹ کی بنیاد پر دائر درخواست واپس لے لی تھی، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کیونکہ نواز شریف کی صحت کا معاملہ بعد میں سامنے آیا، نوازشریف کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے 5 میڈیکل بورڈ بنے، تمام میڈیکل بورڈز نے نوازشریف کو ہسپتال داخل کرانے کی سفارش کی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میڈیکل بورڈز نے سفارش کی کہ نوازشریف کو علاج کی ضرورت ہے،30 جنوری کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈٰیولوجی (پی آئی سی) بورڈ نے بڑا میڈیکل بورڈ بنانے کی تجویز دی اور کہا کہ ایک سے زائد بیماریوں کےعلاج کی سہولت والے ہسپتال میں داخل کروایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی صحت خراب ہونے پر ڈاکٹرز نے معائنہ کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر لارنس کا خط عدالت کے نام نہیں، یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کسی ’مسٹر اے نے مسٹر بی‘ کو خط لکھا ہو۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس خط کی قانونی حیثیت کیا ہے، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ خط میں صرف طبی تاریخ ہے، جیل میں نواز شریف کی طبیعت خراب ہوئی،اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف کی رپورٹس کا جائزہ لے چکے ہیں۔

عدالت کے ریمارکس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹ میں میرٹ پر درخواست بغیر دلائل واپس لے لی تھی، نوازشریف کی طبیعت خراب ہونے پر طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست کی، 5 میڈیکل بورڈز نے نوازشریف کی طبیعت کا جائزہ لیا، ہر بورڈ نے نوازشریف کو ہسپتال منتقل کرنے کی سفارش کی، نوازشریف کو انجیو گرافی کی ضرورت ہے۔

دلائل جاری رکھتے ہوئے خواجہ حارث نے کہا کہ ڈاکٹرز کے مطابق نواز شریف کی انجیو گرافی پیچیدہ مسئلہ ہے، گردوں کا مرض انجیو گرافی میں پیچیدگیوں کا باعث ہے، نواز شریف کو ہائپر ٹینشن، دل، گردے اور شوگر کے امراض ہیں، نواز شریف کی طبی صورتحال کی سنگینی کو مد نظر رکھا جائے کیونکہ ان کی صحت روز بروز خراب ہورہی ہے اور انہیں انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہے۔

خواجہ حارث نے مزید بتایا کہ ذیابیطس اور ہائپر ٹینشن روز بروز بڑھ رہے ہیں، ان کا عارضہ قلب تیسرے درجے میں داخل ہوچکا ہے، تمام میڈیکل بورڈ کی سفارشات ہیں کہ نواز شریف کا ہسپتال میں علاج ہے، ان سفارشات کی روشنی میں نواز شریف کا علاج ضروری ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ آپ نے نواز شریف کی میڈیکل تاریخ سے متعلق ڈاکٹر لارنس کا خط پیش کیا، کیا نواز شریف کی طبی صورتحال سے متعلق صرف یہ ہی ایک ثبوت ہے، آپ ہمیں نواز شریف کی میڈیکل تاریخ بتا رہے اور صرف ایک ثبوت پیش کیا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کے موکل کی خرابی صحت کی بنیاد پر ضمانت کا معاملہ ہے اور آپ نے ایک خط پیش کیا، ہمیں نہیں معلوم ڈاکٹر لارنس کون ہے اور ڈاکٹر عدنان کون ہے، نواز شریف پچھلے 15 سالوں سے ان بیماریوں کا سامنا کر رہے ہیں، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کیا ان بیماریوں کی بنیاد پر ضمانت ہوسکتی ہے، یہ بیماریاں بہت پرانی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا فوجداری مقدمات میں محض ایک خط کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے،آپ کا تمام انحصار ڈاکٹر لارنس کے خط پر ہے، آپ جو بھی تاریخ بتا رہے ہیں یہ تو پرانی ہے۔

’کیا پاکستان کے ہسپتال نواز شریف کے علاج کے قابل نہیں؟‘

جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ڈاکٹروں نے نواز شریف کی انجائنا کی تشخیص کی ہے، اس بیماری کا حملہ کسی وقت بھی ہوسکتا ہے، اس سے قبل بھی نواز شریف کو دو دورے پڑ چکے ہیں، شریانوں میں رکاوٹ کے باعث ہر وقت اٹیک کا خطرہ ہے، اسی بنیاد پر نواز شریف کی انجیوگرافی کا کہا گیا تھا،اگر انجیو گرافی نہ کی گئی تو ان کی صحت کسی بھی وقت بگڑ سکتی ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے ثابت کرنا ہے کہ نواز شریف کی صحت بگڑ رہی ہے، یہ بھی ثابت کرنا ہے کہ جیل میں رہنے سے نوازشریف کی جان کو خطرہ ہے، لوگوں کی کئی طرح کی میڈیکل تاریخ ہوتی اور وہ بچ جایا کرتے ہیں۔

اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کی انجیو گرافی کا معاملہ سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا پاکستان کے ہسپتال اور ڈاکٹرز نوازشریف کے علاج کے قابل نہیں، ہم پاکستان کے کسی ہسپتال میں علاج کا حکم دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس کی بات پر خواجہ حارث نے کہا کہ جیل میں رہ کر نواز شریف ذہنی دباؤ میں ہوں گے، ذہنی دباؤ میں مبتلا رہ کر نواز شریف کا علاج مناسب نہیں، اس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیا یہ ذہنی دباؤ دو ہفتوں میں ختم ہو جائے گا؟ دو ہفتوں بعد اپیل کا فیصلہ آجائے تو کیا ہوگا؟۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ علاج کی سہولت کا بندوبست ہو سکتا ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ ایک طویل معاملہ ہے 2 ہفتوں میں اس کا فیصلہ نہیں ہوگا، نوازشریف کیس کا فیصلہ جلد بازی میں کرنا انصاف کے منافی ہوگا۔

’ثابت کریں کہ نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے‘

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اگر اپیل سماعت کے لیے مقرر ہے تو ضمانت کیسے ہوسکتی ہے، ضمانت تب ہوتی ہے جب اپیل التوا میں ہو، یہ ثابت کریں کہ نوازشریف اتنے علیل ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گھرجانے اور ذہنی دباؤ ختم ہونے پر کیا نوازشریف پاکستانی طبی سہولیات سے مطمئن ہوں گے؟ اگرمان لیں کہ صورتحال بگڑرہی ہے تو کیا ہم طبی سہولت میں آپ کی مدد کرسکتے ہیں؟

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ سماعت پر آپ نے کہا تھا کہ نوازشریف کو اپنے ڈاکٹر پر اعتماد ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت دی گئی۔

اس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فرض کریں ہم 3 سے 4 ہفتوں کے لیے ضمانت دے دیں تو کیا اس عرصے کے دوران نواز شریف کا ذہنی دباؤ کم ہوجائے گا، نواز شریف ملزم ہیں ہم کچھ روز کے لیے ضمانت دے بھی دیں تو واپس ان کو جیل جانا ہوگا۔

عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ان کے وکیل سے پوچھا کہ بتائیں نواز شریف کی سابق اور موجودہ میڈیکل تاریخ کیا ہے، رپورٹس بتاتی ہیں کہ نوازشریف کو دل کا عارضہ ہے، جاننا چاہتے ہیں کہ کیا نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے؟ بتائیں نوازشریف کی میڈیکل تاریخ سے صورتحال کیسےمختلف ہے، صحت کیسے بگڑ رہی ہے؟

اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کو 7 میڈیکل اسٹنٹس ڈالے جا چکے ہیں،انجائنا سے دل کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تمام بورڈ ز نے کہا ہے کہ نوازشریف کی انجیو گرافی کی ضرورت ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف کے موجودہ رپورٹ میں کوئی خطرے کی بات نہیں، پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق نواز شریف 2003 سے عارضہ قلب میں مبتلا ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں کہ خرابی صحت کی بنیاد پر زندگی کو خطرہ لاحق تو نہیں، سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ اگر ملزم کی صحت خراب ہو اور جیل میں سہولت نہ ہو تو ضمانت دی جا سکتی ہے۔

’سنا ہے اوپن ہارٹ سرجری سے مریض 20 سال جوان ہوجاتا ہے‘

چیف جسٹس نے پھر استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں کہ کس طرح نواز شریف کی زندگی کو جیل میں خطرہ ہے؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری ہو چکی ہے اب انجیوگرافی ہونی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنا ہے کہ اوپن ہارٹ سرجری سے مریض 20 سال جوان ہو جاتا ہے، آپ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو انجیو گرافی کے ساتھ نگہداشت چاہیے، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ دل کو خون پہنچانے والی شریان 43 فیصد بند ہے۔

وکیل کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان کے ہسپتال اس قابل ہیں جہاں نواز شریف کا علاج ہوسکے، آپ جس ہسپتال کا کہیں گے اس میں علاج کے اجازت دے گی۔

جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میرے موکل کو ضمانت کی ضرورت ہے، جیل میں قید کی وجہ سے امراض شدت اختیار کر چکے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ 2 ہفتوں میں فیصلہ کردے گی، ہم ہائی کورٹ کو حکم دیتے ہیں کہ کیس کو سنے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ نواز شریف کو ذہنی دباؤ سے چھٹکارہ ملے تاکہ علاج ہوسکے، اگر نواز شریف ذہنی دباؤ سے باہر آئے تو پاکستان میں علاج ہو سکتا ہے، اگر نہیں تو بیرون ملک کون سا ڈاکٹر علاج کر سکتا ہے، اگر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مرض شدید ہے تو ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ضمانت دی جائے تاکہ دباؤ ختم ہوجائے۔

ڈاکٹر عاصم حسین کیس کا حوالہ

خواجہ حارث نے ڈاکٹر عاصم حسین کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کی اجازت سے بیرون ملک علاج کے لیے گئے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بیماری ضمانت کی بہترین بنیاد ہے اگر اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے، آپ کے میڈیکل رپوٹ میں اعتماد کی کمی ہے، کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ اور، آپ کہتے ہیں کہ ذہنی دباو ختم کرنے کے لیے ضمانت دی جائے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا 8 ہفتے بعد آپ کے موکل واپس آجائیں گے، اگلے ماہ کی 9 تاریخ کو ہائیکورٹ میں آپ کی اپیل پر سماعت بھی ہے، اگر وہاں سے فیصلہ آپ کے خلاف آ جاتا ہے تو کیا کریں گے۔

جس پر خواجہ حارث نے کہا ابھی تک صرف نوٹس ہوئے ہیں جو مجھے موصول بھی نہیں ہوئے، 4 ہزار صفحات ہیں اتنا جلدی فیصلہ ممکن نہیں ہے، جہاں تک علاج کا تعلق ہے میرے موکل کی زندگی داؤ پر ہے، علاج مکمل ہونے کے بعد خود کو عدالت کے حوالے کردیں گے۔

اپنے دلائل کے دوران خواجہ حارث نے بیگم کلثوم نواز کی علالت کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ جب میرے موکل کی اہلیہ بیمار تھیں تب بھی پروپیگنڈا کیا گیا، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں میرے موکل کس قدر ذہنی دباؤ کا شکار ہوں گے جب یہ کہا گیا کہ نواز شریف کی بیوی کا انتقال پہلے ہی ہو گیا تھا۔

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسی بھی رپورٹ میں نواز شریف کے بیماری کے بارے میں نہیں لکھا گیا، صرف معائنے کی سفارش کی گئی ہے۔

ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ نواز شریف کی 24 گھنٹے نگرانی کی جا رہی ہے، ان کو کوئی جان لیوا بیماری لاحق نہیں ہے اور نہ ہی ان کی جان کو کوئی خطرہ ہے۔

’نیب کا رویہ ایسا ہے کہ لوگ خود کشیاں کرنے لگے ہیں‘

جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ اگر جان کو خطرہ نہیں تو میڈیکل بورڈ انجیوگرافی کا کیوں کہہ رہے ہیں، ساتھ ہی جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نواز شریف کو ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتال منتقل کرتے رہے، کسی رپورٹ میں نہیں کہا گیا کہ انہوں نے علاج کروانے سے انکار کیا ہے۔

عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے نیب سے متعلق ریمارکس دیے کہ کیا وجہ ہے کہ نیب کے پاس جاتے ہی لوگ ذہنی دباو کا شکار ہو جاتے ہیں، آپ کو تو چاہیے کہ اچھا سا ہسپتال بنا لیں۔

اس دوران چیف جسٹس نے سابق فوجی افسر اسد منیر کی مبینہ خودکشی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نیب کا ایسا رویہ ہے کہ اب تو لوگ خودکشیاں کرنے لگے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھ رہے ہیں۔

بعد ازاں عدالت میں نواز شریف کے وکیل اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے کچھ دیر بعد سناتے ہوئے عدالت نے نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ نواز شریف پر باہر جانے پر پابندی ہوگی اور ضمانت کے عوض 50 لاکھ روپے کے 2 مچلکے جمع کروانے ہوں گے۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کی صورت میں ہائیکورٹ قانون پر عملدرآمد کروائے گی، 6 ہفتوں بعد نواز شریف کی ضمانت ختم ہوجائے گی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ 6 ہفتوں بعد نواز شریف کو اپنے آپ کو حوالے کرنا ہوگا، اگر 6 ہفتوں میں انہوں نے خود کو قانون کے حوالے نہیں کیا تو انہیں گرفتار کیا جائے گا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اگر نواز شریف کے سرنڈر کرنے کے بعد دوبارہ ضمانت کی ضرورت ہوئی تو ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔

خیال رہے کہ دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے 8 ہفتوں کے لیے اپنے موکل کی ضمانت کی استدعا کی تھی۔

یاد رہے کہ 19 مارچ کو سپریم کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا کاٹنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر سزا معطل کرکے ضمانت کی درخواست کی سماعت کی تھی، اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 26 مارچ تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ مل ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی 7 سال قید کی سزا کے خلاف ضمانت کی درخواست 25 فروری کو مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ نواز شریف کی کسی میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ ان کی خراب صحت ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

اس کے ساتھ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی تھی کہ جب بھی انہیں صحت کی خرابی کی شکایت ہوئی تو انہیں وقتاً فوقتاً علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ میڈیکل بورڈ میں شامل ڈاکٹروں کی مرتب کردہ رپورٹس سے یہ بات واضح ہوتی ہیں کہ درخواست گزار کو وہ تمام بہترین ممکنہ طبی سہولیات فراہم کی گئیں جو پاکستان میں کسی بھی فرد کو حاصل ہیں۔

واضح رہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں سابق وزیراعظم نواز شریف لاہور کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا تھا جبکہ انہیں لاہور کے ہسپتالوں میں بھی منتقل کیا گیا تھا اور حکومت کی جانب سے معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: نواز شریف کی درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر

وزیراعظم عمران خان نے بھی مسلم لیگ (ن) کے قائد کی صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب کو ہدایت کی تھی کہ نواز شریف کو ان کی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کی اجازت دی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 25 فروری کے فیصلے کے خلاف نوازشریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں عدالت عظمیٰ سے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی دی گئی 7 برس قید کی سزا ختم کرتے ہوئے ضمانت کی استدعا کی گئی تھی۔

عدالت عظمیٰ میں یہ اپیل دائر کرنے کے ساتھ ہی ایک علیحدہ درخواست بھی جمع کروائی گئی تھی جس میں اس کی 6 مارچ کو جلد سماعت کی گزارش تھی۔

تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے جلد سماعت کی درخواست یہ کہتے ہوئے واپس کردی کہ اس معاملے کو خصوصی توجہ نہیں دی جاسکتی اور کارروائی معمول کے مطابق ہی کی جائے گی۔

عدالت عظمیٰ سے جلد سماعت کی درخواست واپس ہونے کے بعد 11 مارچ کو سابق وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے 25 فروری کے فیصلے کے خلاف ضمانت کی درخواست کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے نئی درخواست دائر کی تھی۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ نواز شریف کی صحت پہلے سے زیادہ خراب ہے، لہٰذا عدالت رواں ہفتے ہی درخواست کی سماعت مقرر کرے جسے عدالت نے 19 مارچ کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

العزیزیہ ریفرنس

یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فیلگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا۔

مزید پڑھیں: 'اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو عمران خان، ان کی حکومت ذمہ دار ہو گی'

عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں شک کی بنیاد پر بری کردیا تھا جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر علیحدہ علیحدہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

علاوہ ازیں نواز شریف کو عدالت نے 10 سال کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔ مذکورہ فیصلے کے بعد نواز شریف کو گرفتار کرکے پہلے اڈیالہ جیل اور پھر ان ہی کی درخواست پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Mar 26, 2019 05:22pm
یہ ضمانت پر رہائی قید کا حصہ ہوگی یا اس کو قید کے مدت ختم ہونے کے بعد پورا کرنا ہوگا؟