’ذاتی حیثیت میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام میں تبدیلی نہیں چاہتا‘

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2019
نیب کے معاملات میں مداخلت کرنا حکومت کا کام نہیں ہے، وزیرخارجہ — فوٹو: ڈان نیوز
نیب کے معاملات میں مداخلت کرنا حکومت کا کام نہیں ہے، وزیرخارجہ — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کا نام تبدیل کرنے کا ’مطالبہ صرف مشورہ‘ تھا تاہم وہ ذاتی حیثیت میں نام کی تبدیلی کے حق میں نہیں ہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ گھوٹکی پر سندھ اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں بشمول پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کی جانب سے بی آئی ایس پی کا نام تبدیل کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

ملتان میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں کا خیال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور ان کے رہنماؤں نے بی آئی ایس پی کا ’غلط استعمال‘ کیا۔

مزیدپڑھیں: تحریک انصاف، پیپلزپارٹی میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام کی تبدیلی پر تکرار

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے بی آئی ایس پی کے تحت حالیہ سروے کے انعقاد پر بھی تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا‘۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ ’پروگرام کا نام تبدیل کرنا ایک قانونی مسئلہ جس کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعظم عمران خان نے واضع کیا تھا کہ غربت مٹاؤ پروگرام ’احساس‘ کے تحت نیا سروے کروایا جائےگا‘۔

عمران خان ڈھیل دینے پر آمادہ نہیں

وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان وزیراعظم عمران خان ڈیل کے قائل ہیں نہ ڈھیل دینے پر آمادہ ہیں۔

ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو ایک خودمختار ادارہ ہے، یہ تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اراکین اسمبلی کے خلاف بھی کیسز کی تفتیش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے معاملات میں مداخلت کرنا حکومت کا کام نہیں ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بہت جلد عمران خان کی سنجیدگی کا پتہ چل جائے گا، اور گزشتہ سالوں میں ہونے والی کرپشن کے بارے میں بھی لوگ جانتے ہیں۔

مزید پڑھیں: نیب میں طلبی سے متعلق مراد علی شاہ کی وضاحت

ان کا کہنا تھا کہ آج سے 6 ماہ پہلے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) دستِ گریباں تھے، بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کی تقاریر دیکھ لیں کہ یہ دونوں جماعتیں کس طرح صف آرا تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ملتان میں ہونے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما غفار ڈوگر پیپلز پارٹی کے رہنما موسیٰ گیلانی کے خلاف تقاریر کر رہے تھے آج وہ ان کی جھولی میں بیٹھے ہیں۔

شاہ محمود نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹر ابہام کا شکار ہے جو سوچ رہا ہے کہ پہلے وہ پیپلز پارٹی کے خلاف تھے اور آج وہ ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کے اراکین جس موقف پر کل تھی اسی پر آج بھی ہیں۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ بھارت آج پاکستان کے خلاف جارحیت کی شکل میں دکھائی دے رہا ہے، پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے، ایف اے ٹی ایف میں گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کا پاکستان میں 5 سے زائد مقامات پر حملے کا منصوبہ تھا، شاہ محمود

انہوں نے کہا کہ میں آج پھر بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے کہتا ہوں کہ ہمارے درمیان سیاسی اختلاف ہے جو رہے گا، آپ کے موقف کو تسلیم کرتے ہیں، آپ ہمارا موقف تسلیم کیجیے لیکن ملکی سلامتی کے معاملات میں آپ تنگدلی اور تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کریں۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کا شہری اپنے منتخب نمائندوں سے توقعات رکھتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے گفتگو کے دوران دفتر خارجہ میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں بھی بتایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کو سیکریٹری خارجہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: دفتر خارجہ نے الیکشن کمیشن اراکین کی تقرری کیلئے نام تجویز کردیے

خیال رہے کہ موجودہ سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ اپنے عہدے سے 16 اپریل کو سبکدوش ہورہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بڑے مشکل مالی حالات میں تحریک انصاف کو معیشت چلانے کی ذمہ داری سونپی گئی، تاہم ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایسے اقدامات اٹھائیں جس سے عوام پر بوجھ کم سے کم پڑے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں احساس ہے جب ڈالر بڑھتا ہے اور روپے کی قدر گرتی ہے تو اس کا براہ راست اثر مہنگائی پر پڑتا ہے۔

جنوبی صوبہ پنجاب بنانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نئے صوبے کا قیام ہمارا نعرہ نہیں ہے، بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ نیا صوبہ ملکی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب 12 کروڑ آبادی پر مشتمل صوبہ بننا عملی طور پر ممکن نہیں ہے، بلکہ یہ اب اس علاقے اور اس کے عوام کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں