خیبرپختونخوا نے سابق فاٹا کے اثاثوں کو حاصل کرکے ملازمین کو مصیبت میں چھوڑ دیا

04 اپريل 2019
ملازمین روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کر رہے ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز
ملازمین روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کر رہے ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے سابق فاٹا کے صوبے سے انضمام کے بعد مستقل اور کانٹریکٹ ملازمین کے علاوہ وہاں کی تمام گاڑیوں اور رہائشی کوارٹرز سمیت منقولہ اور غیرمنقولہ اثاثوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2600 کانٹریکٹ ملازمین سمیت کل 3 ہزار کے قریب ملازمین کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے، جو ضم قبائلی اضلاع کے سیکریٹریٹ میں مختلف ڈپارٹمنٹ اور ڈائریکٹریٹس میں کام کر رہے ہیں اور انہیں مبینہ طور پر سرپلس پول میں ڈال دیا جائے گا۔

مختلف ذرائع سے حاصل کی گئی معلومات میں بتایا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے خیبرپختونخوا سے اںضام کے بعد سابق فاٹا کے سول سیکریٹریٹ کے شعبوں میں کام کرنے والے مستقل ملازمین کو واپس بھیج دیا تھا۔

مزید پڑھیں: فاٹاکا خیبرپختونخوا میں انضمام: سینیٹ سے 31ویں آئینی ترمیم منظور

اس عمل نے سابق فاٹا سیکریٹریٹ جسے ضم علاقوں کا سیکریٹریٹ کا نام دے دیا گیا ہے، اس کے ملازمین میں 26سو افراد کو مختلف منصوبوں کے لیے کانٹریکٹ پر رکھا گیا تھا جبکہ سابق فاٹا ترقیاتی کارپوریشن کے 270 مستقل ملازمین ہیں، اس کے علاوہ مختلف گریڈ میں کام کرنے والے 130 ریگولر ملازمین کو اس عمل نے مصیبت میں ڈال دیا ہے۔

اس انضمام سے قبل محکمہ خزانہ بجٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے سابق فاٹا کی ترقیاتی اور متواتر دونوں اخراجات کو استعمال کرتا تھا، تاہم مئی 2018 میں انضمام کے تناظر میں وفاقی حکومت نے تمام ملحقہ ڈائریکٹریز کو خیبرپختوںخوا کے متعلقہ محکوں کے انتظامی کنٹرول کے تحت کردیا۔

ادھر ایک سرکاری دستاویز میں کہا گیا کہ ’وفاقی حکومت نے لیویز اور خاصادارز کی تنخواہوں اور صوبائی حکومت کے ملازمین، سابق فاٹا ڈی سی، فاٹا سیکریٹریٹ کے ملازمین، لائن ڈائریکٹریز اور خودمختار اداروں کے لیے سول ایڈمنسٹریشن کی بی پی ایس 1 سے 21 میں 56 ہزار 983 منظور شددہ پوسٹس کے لیے 5 ارب 70 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے‘۔

دستاویز میں کہا گیا کہ ’ سابق فاٹا کے لیے (ترقیاتی سمیت دوبارہ) ضروری فنڈز خیبرپختونخوا حکومت کو آئندہ مالی سال 20-2019 کے لیے منتقل کیا جاسکتا ہے‘۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ 3 ہزار ریگولر اور کانٹریکٹ ملازمین کو صوبائی ڈھانچے کے ساتھ ضم کرنے کے بجائے سرپلس پول میں شامل کرنے کی تجویز پر غور جاری ہے۔

دوسری جانب ضم اضلاع کے سیکریٹریک کے ملازمین کی جانب سے پشاور میں احتجاج شروع کردیا گیا۔

سیکریٹریٹ میں ہونے والا یہ احتجاج معمول بن گیا ہے اور ملازمین گزشتہ ایک ہفتوں سے روزانہ 3 گھنٹے اپنی ڈیوٹی کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سابق فاٹا سے خیبر پختونخوا اسمبلی میں 16 نشستوں کے اضافے کی تجویز

علاوہ ازیں ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’خیبرپختونخوا حکومت نے فاٹا ہاؤس اسلام آباد، حیات پشاور میں 17 بنگلے، فاٹا ملازمین کے لیے آفیسرز کالونی، ریسٹ ہاؤسز اور درجنوں گاڑیوں کو اپنے قبضے میں لے لیا لیکن سیکریٹریٹ کے ملازمین کو نہیں اپنایا‘۔

انہوں نے بتایا کہ گریڈ 4 سے 18 کے 130 ریگولر ملازمین کو 2004 میں سابق سول سیکریٹری میں مختلف پوسٹس پر تقرر کیا گیا تھا۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا- فاٹا انضام کے بعد مالی سال 19-2018 کے لیے وفاقی حکومت نے ریگولر ملازمین کی بجٹ تنخواہ صوبائی حکومت کو منتقل کردی تھی لیکن اس کے باوجود انہیں سرپلس پول میں شامل کیا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں