مفت سہولیات دیکر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ اسکول جانا ہے یا مدارس، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 09 اپريل 2019
’سرکاری اسکولوں کا پہلے والا معیار کہاں گیا‘—فوٹو: ڈان نیوز
’سرکاری اسکولوں کا پہلے والا معیار کہاں گیا‘—فوٹو: ڈان نیوز

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نجی تعلیمی اداروں میں اضافی فیس سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ ’مفت سہولیات دیکر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چاہتے ہیں یا مدارس‘۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی جس میں چیف جسٹس نے کہا کہ سرکاری اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بچے مدارس جاتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ حکومت ہر مدرسے کے ساتھ سرکاری اسکول تعمیر کرے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک عام طالبِ علم کے تعلیمی اخراجات میں ایک سال قبل کے مقابلے میں 153 فیصد اضافہ ہوا

انہوں نے ریمارکس دیے ’میں نے خود سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی لیکن اب سرکاری اسکولوں کا پہلے والا معیار کہاں گیا جس کی وجہ سے بھاری فیس ادا نہ کرنے والا ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے‘۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے حکومت پر زور دیا کہ وہ سرکاری اسکول میں مفت کتابیں ، یونیفارم اور دودھ کا گلاس دے اور پھر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا چاہتے ہیں یا مدارس۔

آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ پہلے گلی محلوں میں سرکاری تعلیمی ادارے ہوتے تھے اور اب وہ پرائمری اسکول بھی نظر نہیں آتے تاہم اس ضن میں نجی اسکولوں کے ساتھ حکومت سے بھی پوچھیں گے وہ کیا کر رہی ہے۔

مزیدپڑھیں: نجی اسکولوں کی فیس میں 5 فیصد سے زائد اضافہ غیر قانونی قرار

نجی اسکولوں میں اضافی فیس سے متعلق کیس میں والدین کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے نجی تعلیمی اداروں کی ریگولیشن کے قواعد کو کالعدم قرار دے لیکن ایک اور فیصلے میں ریگولیشن کے قواعد کو قانونی قرار دیا۔

جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ قواعد کالعدم قرار دینے کے بعد سندھ ہائی کورٹ کیسے بحال کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’آئین کا آرٹیکل 18 کاروبار اور تجارت کی بات کرتا ہے جس سے سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اسکولنگ تجارت ہے یا کاروبار؟‘

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مزید ریمارکس دیئے کہ ’سمجھنا ہے کہ تعلیم تجارت میں آتی ہے کہ کاروبار میں‘۔

یہ بھی پڑھیں: اسکول فیس میں 20فیصد کمی،سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ جاری

دوران سماعت بینچ میں شامل جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ’ماضی میں سرمایہ کاری بورڈ کی پابندیوں سے صنعتوں کی ترقی رکی اور پابندیوں سے ہمیشہ ترقی رکنے کا خدشہ ہوتا ہے‘۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ’کسی نجی اسکول پر قدغن کیسے لگائی جا سکتی ہے؟ یقیناً آکسفورڈ کے ساتھ منسلک اسکول کا معیار دیگر سے بلند ہوگا‘۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ’سہولیات کے عوض فیس وصول کرنا اسکولوں کا حق ہے تاہم شہریوں کی مرضی ہے وہ بچوں کو کس اسکول میں پڑھانا چاہتے ہیں‘۔

اس پر بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’ریاست کی ناکامی سے پیدا خلا نجی اسکولز پورا کر رہے ہیں لیکن نجی اسکولوں کو مادر پدر آزادی بھی نہیں دے سکتے‘۔

مزیدپڑھیں: نجی اسکول فیس اضافہ کیس: 'لوگوں نے ایک ایک کمرے کے اسکول بنا رکھے ہیں'

بعدازاں نجی اسکولوں میں اضافی فیس سے متعلق کیس کی سماعت سوموار تک ملتوی ہوگئی۔

تبصرے (0) بند ہیں