کراچی: ایک اور بے نامی اکاؤنٹ میں 36 کروڑ روپے کی موجودگی کا انکشاف

اپ ڈیٹ 11 اپريل 2019
ایف بی آر کے مطابق مذکورہ اکاؤنٹ میں ماہانہ اوسط 2 کروڑ روپے جمع کرائے جاتے رہے — فائل فوٹو/ اے ایف پی
ایف بی آر کے مطابق مذکورہ اکاؤنٹ میں ماہانہ اوسط 2 کروڑ روپے جمع کرائے جاتے رہے — فائل فوٹو/ اے ایف پی

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے کراچی میں ایک اور بے نامی اکاؤنٹ کا سراغ لگا کر اس میں 36 کروڑ روپے کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔

ایف بی آر کے مطابق مذکورہ اکاؤنٹ نصرت بھٹو کالونی کے رہائشی محمد ابراہیم کے نام پر ہے۔

ادارے کے مطابق گزشتہ سال کے دوران محمد ابراہیم کے اکاؤنٹ میں رقم بھیجی جاتی رہی ہے، جس کے بعد تحقیقات کا آغاز کردیا گیا۔

علاوہ ازیں کراچی کی مقامی عدالت نے ایف بی آر کراچی کی مقدمہ درج کرنے کی استدعا بھی منظور کرلی جبکہ انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو نے معاملے کا مقدمہ درج کیا۔

مزید پڑھیں: ہسپتال کی خاتون ملازمہ کے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے کی منتقلی کا انکشاف

ساتھ ہی عدالت نے ملزم کے 10 لاکھ کے عوض قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے۔

ایف بی آر کے مطابق محمد ابراہیم نامی شخص نے 2015 میں اکاؤنٹ کھولا، بے نامی اکاؤنٹ میں یکم جولائی 2015 تا 30 جون 2018 تک رقم منتقل کی گئی اور 3 سال میں مجموعی طور پر 36 کروڑ 94 لاکھ سے زائد کی رقم جمع کرائی گئی۔

وفاقی ادارے کا کہنا تھا کہ ملزم متعلقہ پتے پر دستیاب ہی نہیں جس سے شبہ ہے کہ کسی نے منی لانڈرنگ کے لیے اکاؤنٹ کھولا۔

ایف آئی آر کا مزید کہنا تھا کہ مذکورہ اکاؤنٹ میں ماہانہ اوسط 2 کروڑ روپے جمع کرائے جاتے رہے اور غریب علاقے کے شہری کے اکاؤنٹ میں اتنی بڑی رقم سے شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں۔

خیال رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے بد عنوانی کرنے والوں کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، جس کے ساتھ ہی ملک میں بے نامی اکاؤنٹس کے معاملات بھی سامنے آرہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 30 بے نامی اکاؤنٹس سے 10 ارب روپے کی ٹرانزیکشن کا انکشاف

گزشتہ سال 17 اکتوبر 2018 کو پشاور کے خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں خاتون ملازمہ کے اکاؤنٹ میں کروڑوں کی منتقلی کی گئی تھی۔

ہسپتال کے ڈائریکٹر فنانس گلزار خان نے معاملے کو کمپیوٹر کی غلطی قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ شبانہ نامی کمپیوٹر آپریٹر کے اکاؤنٹ میں کروڑوں روپے پائے گئے۔

واضح رہے مبینہ طور پر غبن سامنے آنے کے بعد ہسپتال کی جانب سے خاتون کو غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا گیا تھا جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سائبرکرائم نے بھی تحقیقات شروع کیں۔

15 اکتوبر 2018 کو کراچی میں منی لانڈرنگ کیس میں فالودے والے اور رکشے والے کے بعد مردے کے نام پر بینک اکاؤنٹ بنائے جانے اور اس میں اربوں روپے کی منتقلی کا انکشاف ہوا تھا۔

اس کے علاوہ کراچی میں جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق تفتیش نے اس وقت حکام کو چکرا کر رکھ دیا تھا جب ایک مردہ شخص کے نام پر اکاؤنٹس نکل آئے تھے۔

شادمان ٹاؤن میں 4 سال قبل انتقال کر جانے والے شخص کے نام پر کھولے گئے جعلی اکاؤنٹس سے 4 ارب 60 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشنز کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر کو بے نامی اکاؤنٹس اور جائیداد ضبط کرنے کا اختیار مل گیا

یاد رہے کہ 3 روز قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے رکشہ ڈرائیور کے بینک اکاؤنٹ سے 2 ارب 50 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشنز کا انکشاف کیا تھا۔

اس سے قبل حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک ڈرائیور کے اکاؤنٹ میں راتوں رات کروڑوں روپے کی منتقلی کا انکشاف سامنے آیا تھا۔

ستمبر 2018 میں فالودہ بیچ کر اپنے اہل خانہ کی کفالت کرنے والے عبدالقادر کو ایف آئی اے کی جانب سے طلبی کا نوٹس جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے اکاؤنٹ میں 2 ارب 25 کروڑ روپے موجود ہیں جبکہ وہ اس رقم کی منتقلی سے لاعلم تھے۔

اس سے قبل ایک مزدور اور سبزی فروش کے اکاؤنٹس میں 2 سے 4 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کا انکشاف ہوا تھا۔

ملک میں بڑے کاروباری افراد اور گروپس ٹیکس بچانے کے لیے عموماً ایسے اکاؤنٹس کھولتے ہیں، جنہیں 'ٹریڈ اکاؤنٹس' کہا جاتا ہے اور جس کے نام پر یہ اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے اسے رقم بھی دی جاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں