طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کے نئے دور کا آغاز

اپ ڈیٹ 02 مئ 2019
حالیہ مذاکرات میں افغان حکومتی نمائندوں کو شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی — فائل فوٹو/اے پی
حالیہ مذاکرات میں افغان حکومتی نمائندوں کو شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی — فائل فوٹو/اے پی

کابل: افغانستان میں 17 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی کوشش کے لیے قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کا آغاز ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دوسری جانب افغان حکومت نے کابل میں اسمبلی کے غیر معمولی اجلاس کی میزبانی کی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ کسی بھی امن معاہدے کی صورت میں اس کے مفادات کو مدِنظر رکھا جائے۔

اس ضمن میں طالبان کی جانب سے جاری بیان میں تصدیق کی گئی کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی جو عسکریت پسندوں کے وفد کی قیادت کررہے تھے۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے اہم ترین پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: زلمے خلیل زاد کو رواں سال ہی افغان جنگ کے اختتام کی اُمید

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی ضروری ہے کہ 2 نکاتی ایجنڈے، افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا اور افغانستان سے کسی کو نقصان پہنچنے کی روک تھام، کو حتمی شکل دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ اس مسئلے کے دیگر پہلوؤں کے حل کی راہیں بھی ہموار کرے گا اور ہم اس سے پہلے دوسری جانب توجہ نہیں دے سکتے‘۔

دوسری جانب کابل میں موجود امریکی سفارت خانے سے صرف اس بات کی تصدیق ہوسکی کہ مذاکرات ہورہے ہیں۔

اس ضمن میں ایک مغربی سفارتکار کا کہنا تھا کہ اس مذاکراتی دور میں زلمے خلیل زاد اور ان کا وفد سب سے پہلے لڑائی روکنے کے لیے جنگ بندی کے اعلامیے پر توجہ دیں گے۔

مزید پڑھیں: طالبان کے ساتھ امریکی کوششوں پر مباحثے کیلئے افغان لویہ جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ

امریکی سفارت کار کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ متوقع طور پر تنازع کا سیاسی حل نکالنے کے لیے طالبان کی بین الافغان مذاکرات میں شمولیت پر اصرار کریں گے لیکن طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ حالیہ مذاکرات میں افغان حکومتی نمائندوں کو شامل ہونے کی اجازت نہیں۔

لویہ جرگہ

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی نے غیر معمولی مشاورتی اجلاس جسے لویہ جرگہ کہا جاتا ہے، منعقد کیا، تا کہ کابل کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار کی جاسکے۔

یاد رہے کہ افغان نمائندگان اور طالبان کے مابین گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات ہونے تھے لیکن افغان حکومت کے وفد میں اراکین کی شمولیت پر اعتراض کرتے ہوئے عسکری گروہ نے آخری لمحات میں ان مذاکرات سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: افغان وفد پر طالبان کے اعتراض کے بعد امن مذاکرات ملتوی

خیال رہے کہ طالبان اب تک افغان حکومت کو امریکی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کرتے آئے ہیں۔

دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کو یقین ہے کہ لویہ جرگے کے انعقاد سے امن مذاکرات میں افغان حکومت کے نمائندوں کی شمولیت کو تقویت اور جواز ملے گا۔

اس جرگے میں افغانستان کے 34 صوبوں سے 32 سو قبائلی عمائدین سیاستدانوں، مذہبی اور برادری کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

تاہم سابق صدر حامد کرزئی سمیت اپوزیشن رہنماؤں نے اس جرگے کا بائیکاٹ کیا جن کا کہنا تھا کہ اشرف غنی اس پلیٹ فارم کو آئندہ آنے والے انتخابات میں بحیثیت ایک رہنما اپنی حیثیت مضبوط کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں