زلمے خلیل زاد، طالبان کے ہتھیار ڈالنے کا خیال بھول جائیں، ترجمان

اپ ڈیٹ 04 مئ 2019
نمائندہ خصوصی کو امریکا کی جانب سے طاقت کا استعمال ختم کرنے کا تصور دینا چاہیے، ذبیح اللہ مجاہد — فائل فوٹو/اے ایف پی
نمائندہ خصوصی کو امریکا کی جانب سے طاقت کا استعمال ختم کرنے کا تصور دینا چاہیے، ذبیح اللہ مجاہد — فائل فوٹو/اے ایف پی

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ امریکی نمائندہ امن عمل زلمے خلیل زاد طالبان سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیں اور امریکا سے کہیں کہ وہ طاقت کا استعمال چھوڑے۔

برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق زلمے خلیل زاد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’مذاکرات کے افتتاحی سیشن میں، میں نے طالبان کو آگاہ کیا کہ افغان شہری جو ان کے بھائی اور بہنیں ہیں، وہ اس جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ ہتھیار چھوڑنے، انتہا پسندی کو روکنے اور امن کے قیام کا وقت ہے‘۔

جس پر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے زلمے خلیل زاد کے بیان کے ردعمل میں ٹوئٹس کیے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: لویہ جرگے کا ’ فوری اور مستقل‘ جنگ بندی کا مطالبہ

ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’زلمے خلیل زاد ہمارے ہتھیار ڈالنے کے تصور کو بھول جائیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ایسے خوابوں کے بجائے انہیں امریکا کی جانب سے طاقت کا استعمال ختم کرنے کا تصور اور کابل انتظامیہ کے مالی و جانی نقصانات کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے‘۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ امریکا کو مختلف نتائج کی توقع کرتے ہوئے ناکام حکمت عملی کو دہرانا نہیں چاہیے۔

طالبان ترجمان نے کہا کہ ’یہ بہتر ہوگا کہ امریکی نمائندہ برائے افغان امن عمل کو صاف گوئی سے بولنے کی کوشش کریں اور موجودہ حقائق کو تسلیم کریں‘۔

اس حوالے سے گزشتہ روز ایک علیحدہ ٹوئٹ میں زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ ’امن کے لیے ضروری ہے کہ ہم 4 مسائل کے حل پر متفق ہوں، فوجیوں کے انخلا، انسداد دہشت گردی کی یقین دہانی، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات اور بات چیت اور مکمل جنگ بندی کی طرف پیش قدمی‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’جب تک ہم ان 4 مسائل پر متفق نہیں ہوتے کچھ بھی حتمی نہیں ہوگا‘۔

خیال رہے کہ زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات کا چھٹا مرحلہ جاری ہے جس میں افغانستان میں قیام امن سے متعلق کسی معاہدے پر پہنچنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز افغانستان میں طالبان سے امن معاہدے کے لیے ہزاروں افغان رہنماؤں نے گرینڈ اسمبلی (لویہ جرگہ) میں پہلے قدم کے طور پر دونوں اطراف سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کے نئے دور کا آغاز

جمعہ کو لویہ جرگہ نے اعلامیے میں مطالبہ کیا تھا کہ ’اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت اور تحریک طالبان کو فوری طور اور مستقل جلد بندی کا اعلان اور اس پر عملدرآمد کرنا چاہیے‘۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کہ جنگ بندی کو رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے آغاز سے قبل شروع ہونا چاہیے۔

گرینڈ اسمبلی کے مطالبے پر افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ ’وہ جنگ بندی کے اس جائز مطالبے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں ‘لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ ’یہ یک طرفہ نہیں ہوسکتا‘۔

اشرف غنی نے ایک تقریر میں کہا کہ ’اگر طالبان جنگ بندی کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں تو ہم تکنیکی تفصیلات پر بات چیت کرسکتے ہیں‘۔

افغانستان میں اس وقت امریکا کی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار پر مشتمل ہے۔

مذاکرات کے 5 پانچ مراحل کے بعد زلمے خلیل زاد نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا اور طالبان کی جانب سے انتہا پسندوں کو حملوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال روکنے کو یقینی بنانے کے مسودے پر متفق ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں