صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام: پیپلز پارٹی نے سینیٹ میں بل پیش کردیا

اپ ڈیٹ 04 مئ 2019
صوبہ جنوبی پنجاب میں ملتان، بہاولپور، ڈیرا غازی خان ڈویژن جبکہ میانوالی اور بھکر کے اضلاع شامل ہوں گے۔ — فائل فوٹو: ڈان اخبار
صوبہ جنوبی پنجاب میں ملتان، بہاولپور، ڈیرا غازی خان ڈویژن جبکہ میانوالی اور بھکر کے اضلاع شامل ہوں گے۔ — فائل فوٹو: ڈان اخبار

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے بل سینیٹ میں پیش کردیا جس میں ان نکات کو بھی شامل کیا گیا ہے جنہیں 2013 میں ایون سے منظور کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے حکومت کے ابتدائی 100 روز میں ہی نئے صوبے کے قیام کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی نے گزشتہ 8 ماہ سے حکومت کے اس وعدے کے وفا ہونے کا انتظار کیا تاہم دیگر جماعتوں کی حمایت کے ساتھ اس بل کو سینیٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے حکومت کو پہلے سے پاس ہونے والے بل کو اپنا بل بنانے کی پیشکش کی تھی، تاہم حکومت کی جانب سے نہ ہی اس پیشکش پر جواب دیا گیا اور نہ ہی وہ اپنا بل ایوان میں پیش کرسکی۔

مزید پڑھیں: صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے لیے وزیرِاعلیٰ کی ہدایت پر12 رکنی کونسل تشکیل

انہوں نے یاد دلایا کہ 2012 میں ایک کثیرالجماعتی پارلیمانی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا جس نے اس معاملے پر مختلف سنوائیوں اور بحث و مباحثے کے بعد ایک جامع رپورٹ تیار کی تھی۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے جنوبی پنجاب سے 50 میں سے 30 پارلیمانی نشستوں پر سرائیکی صوبے کے قیام کے وعدے کی بنیاد پر ہی کامیابی حاصل کی ہے تاہم اب وہ خود ہی اس سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔

خیال رہے کہ صوبہ جنوبی پنجاب میں ملتان، بہاولپور، ڈیرا غازی خان ڈویژن جبکہ میانوالی اور بھکر کے اضلاع شامل ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پانچویں صوبے کی بات آج کی نہیں بہت پرانی ہے!

علاوہ ازیں سینیٹ میں اپوزیشن اراکین نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے میڈیا ہاؤسز میں تنخواہوں کی کٹوتی اور ان کی تاخیر سے ادائیگی پر ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ اس کی سب سے بڑی وجہ میڈیا ہاؤسز کے لیے حکومتی اشتہارات بند کرنا ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ کسی بھی میڈیا کی سنسرشپ آئین کی خلاف ورزی ہے جس نے آزادی اظہارِ رائے کو ایک بنیادی حق تسلیم کیا ہے۔

انہوں نے میڈیا کی جمہوریت کے لیے خدمات کو سراہاتے ہوئے کہا کہ اب موجودہ حکومت نے میڈیا کو دباؤ میں لینے کے لیے سینسر شپ کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔

مزید پڑھیں: ’جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا آسان کام نہیں‘

سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے اس حوالے سے کہا کہ معلومات کے انقلاب کے اس دور میں میڈیا کردار اہم ترین ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت میڈیا ورکرز کو تین طرح کے مسائل کا سامنا ہے جس میں تبدیلیاں ، ان کی تنخواہوں میں بڑی حد تک کٹوتی اور تنخواہوں کی تاخیر سے ادائیگی شامل ے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ 2014 میں پاکستان تحریک انصاف کے دھرنےکے دوران میڈیا نے انہیں مکمل کوریج دی لیکن جیسے ہی یہ جماعت اقتدار میں آئی تو اس نے سب سے پہلے اسی کو نشانہ بنایا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں