بابری مسجد تنازع کے حل کیلئے ثالثی پینل کی مدت میں 3 ماہ کی توسیع

11 مئ 2019
اس مقام کو بہت سے ہندو اپنے دیوتا رام کی پیدائش کی جگہ قرار دیتے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
اس مقام کو بہت سے ہندو اپنے دیوتا رام کی پیدائش کی جگہ قرار دیتے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

نئی دہلی: بھارت کی سپریم کورٹ نے 16 صدی سے ایودھیا کی بابری مسجد کی جگہ مندر تعمیر کرنے کے ایک دہائی سے جاری تنازع کو حل کرنے کے لیے بنائے گئے ثالثی پینل کی مدت میں 3 ماہ کی توسیع کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس معاملے کو مزید طول دینے سے بھارتی انتخابات کے دوران مذہبی تناؤ میں مزید اضافہ نہیں ہوگا جو 11 اپریل کو شروع ہوئے تھے اور 23 مئی کو اختتام پذیر ہوجائیں گے۔

ثالثی پینل کو 15 اگست تک کی مہلت دیتے ہوئے چیف جسٹس رنجان گوگوئی کا کہنا تھا کہ ملک کے کئی حصوں میں فسادات کا سبب بننے کی تاریخ کے ساتھ بھارت کے سب سے بڑے مذہبی تنازع کے پر امن حل کی امیدیں بڑھ رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ثالثی کمیٹی کی جانب سے مدت میں 15 اگست تک توسیع کی درخواست کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد: بھارتی سپریم کورٹ نے تنازع کے حل کیلئے ثالثی ٹیم بنادی

خیال رہے کہ ثالثی پینل مارچ میں قائم کیا گیا تھا جسے ابتدائی طور پر 8 ہفتوں کی حتمی مدت دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ انتخابات سے مہینوں پہلے ہی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کے ہندو اتحادیوں کی جانب سے اس مقام پر مندر تعمیر کرنے کے مطالبوں میں شدت آگئی تھی، اس مقام کو بہت سے ہندو اپنے دیوتا رام کی پیدائش کی جگہ قرار دیتے ہیں۔

لیکن انتخابات شروع ہوتے ہیں قدامت پسند ہندوؤں نے مندر کا تعمیر کا منصوبہ پسِ پشت ڈال دیا۔

یاد رہے کہ 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بابری مسجد تنازع حل نہ ہونے پر بھارت میں خانہ جنگی کا خطرہ

جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔

ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروا رکھیں ہیں جس نے اس معاملے پر 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھا۔

اس تنازع کے باعث مسلمانوں اقلیت اور ہندوؤں اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا، خیال رہے کہ مسلمان بھارت کی ایک ارب 30 کروڑ آبادی کے 14 فیصد پر مشتمل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں