سینئر ججز کے خلاف حکومتی ریفرنس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل احتجاجاً مستعفی

اپ ڈیٹ 29 مئ 2019
یہ ججز کا احتساب نہیں بلکہ عدلیہ پر حملہ ہے، ایسا کرنا عدلیہ کی آزادی کو بے تحاشہ نقصان پہنچائے گا، استعفے کا متن— فائل فوٹو/ ویکی میڈیا کامنز
یہ ججز کا احتساب نہیں بلکہ عدلیہ پر حملہ ہے، ایسا کرنا عدلیہ کی آزادی کو بے تحاشہ نقصان پہنچائے گا، استعفے کا متن— فائل فوٹو/ ویکی میڈیا کامنز

کراچی: ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین ابراہیم نے حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بعض سینئر ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر استعفیٰ دے دیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد ابراہیم نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو بھجوادیا۔

ڈان نیوز کو حاصل ہونے والے استعفے کی کاپی کے مطابق زاہد ابراہیم کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ ججز کا احتساب نہیں بلکہ عدلیہ پر حملہ ہے۔

انہوں نے اپنے استعفے میں بتایا کہ ایسا کرنا عدلیہ کی آزادی کو بے تحاشہ نقصان پہنچائے گا جبکہ عدلیہ بنیادی انسانی حقوق اور جمہوریت کی اساس ہے۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا

مستعفی ہونے والے ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین ابراہیم نے صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں نومبر 2018 میں مذکورہ عہدے پر تعینات کیا گیا تھا جو ان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے، جس کا مقصد صوبہ سندھ میں بحیثیت وکیل وفاق کی نمائندگی کرنا تھا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد ابراہیم کے استعفے کا عکس — فوٹو: شفیع بلوچ
ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد ابراہیم کے استعفے کا عکس — فوٹو: شفیع بلوچ

انہوں نے اپنے استعفے میں مزید کہا کہ گزشتہ روز انہیں میڈیا رپورٹس سے معلوم ہوا کہ وفاق نے آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کے سینئر ججز کے خلاف بے ضابطگیوں سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا ہے، جس کی تصدیق مجھے ایک سرکاری عہدیدار نے بھی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے اس اقدام کے بعد میں اپنے دفتر میں کام جاری نہیں رکھ سکوں گا اور اس لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے عہدے سے مستعفی ہورہا ہوں، میرے استعفے کو فوری طور پر منظور کیا جائے۔

خیال رہے کہ اس سے قبل میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ وفاقی حکومت نے ہائی کورٹس کے 2 اور سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز دائر کردیے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک فوج کا جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

رپورٹس میں مزید بتایا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے ریفرنسز میں ججز پر بیرون ملک جائیدادیں ظاہر نہ کرنے کے الزام لگائے گئے ہیں۔

یاد رہے کہ ججز کی بے ضابطگیوں اور دیگر شکایات درج کرانے کا واحد فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات کی روشنی میں اب تک 2 ججز کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹایا جاچکا ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے گزشتہ سال اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی جس کے بعد صدر مملکت نے اس کی منظوری دے دی تھی۔

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کا عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام

اس سے قبل 1973 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت علی کو بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں