’آئندہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح واضح طور پر بلند رہے گی‘

اپ ڈیٹ 11 جون 2019
گذشتہ 2 سالوں کے درمیان مالی خسارے میں اضافے کے باعث طلب میں دباؤ دیکھنے میں آیا — تصویر: شٹر اسٹاک
گذشتہ 2 سالوں کے درمیان مالی خسارے میں اضافے کے باعث طلب میں دباؤ دیکھنے میں آیا — تصویر: شٹر اسٹاک

کراچی: توانائی کی قیمتوں میں ممکنہ تبدیلی، بین الاقوامی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ٹیکسز میں اضافے کے سبب مہنگی غذائی اجناس کے باعث مشکلات کے شکار صارفین کے لیے مالی سال 20-2019 میں بھی مہنگائی کی شرح کافی بلند رہنے کا امکان ہے۔

پاکستان اقتصادی سروے 19-2018 میں کنزیومر پرائس انڈیکس کے عنوان میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ مالی سال 2019 میں مہنگائی کی شرح سے 7 سے 8 فیصد رہے گی، یوٹیلیٹی کی بلند قیمتیں اور ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی آئندہ آنے والے مہینوں میں مہنگائی پر مزید دباؤ بڑھائیں گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کے شائع کردہ حالیہ سروے کے مطابق گزشتہ 2 سال کے درمیان مالی خسارے میں اضافے کے باعث طلب میں دباؤ دیکھنے میں آیا۔

ٰیہ بھی پڑھیں: پاکستان کی معیشت کو خطرہ لاحق ہے،ڈالر لے کر خوشحالی نہیں لاسکتے،مشیر خزانہ

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ صنعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ کاروبار کی لاگت میں کمی اور غذائی اشیا کی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے متعدد ٹیکس اور ڈیوٹیز ختم کی جائیں۔

تاہم مارکیٹ قوتوں کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی غذائی قلت پیدا کرنے کی وجہ سے ملک میں طلب کے باعث ہونے والی مہنگائی دیکھنے میں آئی۔

اس کا زیادہ تر اثر غیر غذائی اشیا میں ہوگا، رپورٹ میں توقع کی گئی ہے کہ اگر صوبائی اور وفاقی حکومتیں قیمتوں کی موثر نگرانی اور ضروری اشیا کی بغیر کسی رکاوٹ کے فراہمی یقینی بنائیں تو قیمتوں میں استحکام رہے گا۔

مزید پڑھیں: مہنگائی کی شرح 9.11 فیصد تک پہنچ گئی

رواں برس مارچ کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 9.4 فیصد تک جاپہنچی تھی جس کے بعد کم ہوکر 8.8 فیصد اور اپریل میں 8 فیصد ہوگئی تھی۔

مہنگائی پر دباؤ کی وجہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ، جلد خراب ہونے والی غذائی اجناس کی قیمتوں میں واضح اضافے، شرح تبادلہ میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر ایندھن کی قیمتوں میں تبدیلی کو قرار دیا گیا۔

کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں سب سے اہم چیز کور انفلیشن (افراط زر) رہی جس میں گذشتہ برس مارچ سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے واضح رہے کہ کور انفلیشن کا مطلب خدمات اور اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے اس میں غذائی اشیا شامل نہیں ہوتی۔

مزید پڑھیں: اقتصادی جائزہ رپورٹ: حکومت تمام اہم معاشی اہداف کے حصول میں ناکام

کور انفلیشن کا اندازہ 43 غیر غذائی اشیا کے جائزے سے لگایا گیا، جو اختتام پذیر مالی سال کے آغاز سے بڑھ رہی تھی اور فروری میں 8.8 فیصد تک جا پہنچی تھی جو مالی سال 19-2018 کے آخری 7 ماہ میں بلند ترین سطح تھی۔

تاہم مارچ اور اپریل میں اس میں کمی آنے کے باعث یہ 7 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ جولائی تا اپریل مالی سال 2019 میں کور انفلیشن اوسطاً 8.11 فیصد ریکارڈ کی گئی جو مالی سال 2018 میں 5.6 فیصد تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں