امریکی صدر نے ایران پر مزید پابندیوں کے حکم نامے پر دستخط کردیئے

اپ ڈیٹ 25 جون 2019
ایران کے سپریم لیڈر ایرانی جارحیت کے ذمہ دار ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ — فوٹو: اے پی
ایران کے سپریم لیڈر ایرانی جارحیت کے ذمہ دار ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ — فوٹو: اے پی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور فوجی کمانڈروں پر مالی پابندیوں سے متعلق حکم نامے پر دستخط کر دیے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے سپریم لیڈر جارحیت کے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا، ایران کے ساتھ تنازع نہیں چاہتا لیکن جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالتا رہے گا۔

ٹرمپ نے اس فیصلے کو ایران کی بڑھتی جارحیت کا ٹھوس جواب قرار دیا اور اپنے موقف کو دہرایا کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔

مزید پڑھیں: ایران سے کشیدگی، مائیک پومپیو کی شاہ سلمان سے ملاقات

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ پابندیاں ایران کی جانب سے جاری مسلسل جارحیت سمیت آبنائے ہرمز پر 10 کروڑ ڈالر مالیت کے امریکی ڈرون گرانے کے جواب میں عائد کی گئی ہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ پابندیوں کا خاتمہ ایران کے ردعمل پر منحصر ہے، یہ پابندیاں کل بھی ختم ہوسکتی ہیں یا اس میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے کہا کہ امریکا، ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو بلیک لسٹ اور ’اربوں‘ کے ایرانی اثاثے منجمد کرے گا جبکہ اس فہرست میں پاسداران انقلاب کے 8 اعلیٰ کمانڈرز بھی شامل ہیں۔

دو روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ اگر ایران جوہری ہتھیاروں سے دست بردار ہونے پر آمادہ ہوجائے تو وہ تہران کے بہترین دوست بننے کو تیار ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’جب ایران اس بات پر متفق ہوگا تو وہ ایک دولت مند ملک بنے گا، وہ خوش ہوں گے اور میں ان کا بہترین دوست بنوں گا‘۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کیے گئے ٹوئٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’ہم پیر (24 جون) سے ایران پر اہم اضافی پابندیاں عائد کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب ایران سے پابندیاں ہٹائی جائیں اور وہ دوبارہ خوش حال قوم بن جائے، ایسا جتنا جلدی ہو اتنا ہی بہتر ہوگا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ایران نے امریکی سائبر حملوں کا دعویٰ مسترد کردیا

دوسری جانب ایران کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا کی نئی پابندیوں سے کوئی ’ اثرات‘ مرتب نہیں ہوں گے۔

وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے تہران میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم حقیقت میں نہیں جانتے کہ نئی پابندیاں کیا ہیں اور وہ مزید کس چیز کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں اور ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ ان پابندیوں کے کوئی اثرات مرتب ہوں گے‘۔

خیال رہے کہ چند روز قبل ایران کی پاسداران انقلاب نے جنوبی ساحلی پٹی پر امریکی جاسوس ڈرون مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔

پاسداران انقلاب کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کوہ مبارک نامی حصے میں ایرانی فضائیہ نے امریکی ساختہ گلوبل ہاک ڈرون کو ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر نشانہ بنایا تھا۔

دوسری جانب امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے تصدیق کی تھی کہ ایرانی فورسز نے نگرانی پر مامور امریکی نیوی کے ڈرون آر کیو-4 گلوبل ہاک مار گرایا ہے، تاہم ان کا اصرار تھا کہ ڈرون کو بین الاقوامی فضائی حدود میں بلاوجہ نشانہ بنایا گیا۔

سینٹرل کمانڈ کے ترجمان نیوی کیپٹن بل اربن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایرانی فورسز نے آبنائے ہرمز میں بین الاقوامی فضائی حدود میں موجود ڈرون کو نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: ایران: پاسداران انقلاب کا امریکی جاسوس ڈرون مار گرانے کا دعویٰ

واضح رہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر تنازع میں شدت کے بعد تہران کو دباؤ میں لانے کے لیے خلیج فارس میں بی 52 بمبار سمیت متعدد طیارے اور جنگی بحری بیڑا اتارنے کے بعد اسالٹ شپ اور پیٹرائٹ میزائل دفاعی نظام تعینات کیے تھے۔

گزشتہ ایک ماہ کے اندر امریکا، مشرق وسطیٰ میں مرحلہ وار ڈھائی ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کرچکا ہے۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سیکیورٹی مشیر جان بولٹن نے کہا تھا کہ مذکورہ اقدام کا مقصد ایران کو واضح اور غیر مبہم پیغام دینا ہے کہ اگر اس نے امریکا یا خطے میں اس کے کسی پارٹنر پر حملہ کیا تو نتائج سنگین ہوں گے۔

اسی دوران خلیج عمان میں 4 تیل بردار جہازوں پر حملہ ہوا اور امریکا نے حملے کا الزام ایران پر عائد کیا۔

واشنگٹن نے اپنے دعوے کے دفاع میں ایک ویڈیو بھی نشر کی جس میں پاسداران انقلاب کی ایک کشتی کو تیل بردار جہاز کے پاس دیکھا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب ایران نے امریکی الزام کو من گھڑت قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

گذشتہ ہفتے خلیج عمان میں ایک مرتبہ پھر 2 تیل برداروں پر حملہ کیا گیا تھا جس کا الزام بھی ایران پر عائد کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں