سیلز ٹیکس کے نفاذ پر احتجاجاً 600 ٹیکسٹائل پروسیسنگ یونٹس غیر فعال

اپ ڈیٹ 02 جولائ 2019
حکومت تجارتی شبعوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے میں بھی ناکام رہی— فائل فوٹو: رائٹرز
حکومت تجارتی شبعوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے میں بھی ناکام رہی— فائل فوٹو: رائٹرز

لاہور/ فیصل آباد: حکومت کی جانب سے ٹیکس استثنیٰ کے حامل پانچ صنعتی شعبوں پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیے جانے کے بعد ملک کے چار بڑے شہروں میں 600 ٹیکسٹائل پروسیسنگ یونٹس احتجاجاً بند کردیئے گئے۔

ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق حکومت صنعتی شبعوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے میں بھی ناکام رہی۔

یہ بھی پڑھیں: صنعت کار ٹیکس چوری کے لیے جعلی اکاؤنٹس استعمال کرنے لگے

ٹیکسٹائل پروسیسنگ یونٹس غیر فعال ہونے کی وجہ سے چاروں شہروں کے ہزاروں مزدور بے روزگار ہوگئے جبکہ ٹیکسٹائل پروسیسنگ یونٹس مالکان کی جانب سے کہا گیا کہ اگر حکومت نے ان کے جائز مطالبات ماننے سے مسلسل روگردانی کی تو اگلے 10 روز میں اپنے حتمی فیصلے سے آگاہ کریں گے۔

آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن (اے پی ٹی ایم اے) کے چیئرمین حبیب گجر نے ڈان کو بتایا ’ہم نے کراچی، فیصل آباد، لاہور اور گجرانوالہ کے تمام ممبر ٹیکسٹائل پروسیسنگ یونٹس بند کردیے، فیصل آباد کی 240 اور کراچی کے تقریباً 225 یونٹس احتجاجاً بند کیے گئے۔

دوسری جانب آل پاکستان ٹیکسٹائل سائزنگ ایسوسی ایشن (اے پی ٹی ایس اے) نے بھی فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور حافظ آباد میں جمعرات سے 100 ملزبند کرنے کا اعلان کردیا۔

مزیدپڑھیں: ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بلاتعطل گیس فراہمی پر کمیٹی قائم

اے پی ٹی ایس اے کے پیٹران شکیل انصاری نے بتایا کہ ’ہمارا اہم مسئلہ یہ ہے کہ تمام صنعتی شعبے تاحال رجسٹراڈ نہیں ہوسکے اس لیے حکومت کو پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’تجارتی شعبے شناختی کارڈ کی بنیاد پر ہم سے خریداری کے لیے آمادہ نہیں ہیں‘۔

اے پی ٹی ایم اے کے چیئرمین حبیب گجر نے حکومت سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اہم فیصلوں میں ساتھ شامل کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’ہم حکومت کے ساتھ ہیں لیکن وہ صنعتی شبعوں میں بدنظمی پیدا کررہی ہے‘۔

اس دوران اے پی ٹی ایس اے کے چیف شیکل انصاری نے فیصل آباد میں صحافیوں کوبتایا کہ ایس آر او 1125 کے تحت ٹیکس استثنیٰ کی حامل پانچ صنعتی شعبوں پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کردیا اور ایس آر او منسوخ کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: دھاگے کی قیمت میں 30 فیصد اضافے سے ٹیکسٹائل سیکٹر متاثر

انہوں نے بتایا کہ ڈالر کی قدر میں اضافے سے صنعتی شعبے بری طرح متاثرہوئے کیونکہ ہمیں ٹیکسٹائل کیمیکلز اور آلات درآمد کرنے پڑتے ہیں اور گیس اور بجلی کی قیمتوں کا تعلق بھی ڈالر سے کردیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ صنعتوں کے غیر فعال ہونے پر لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں۔

دوسری لوم مالکان پر مشتمل ایسوسی ایشن کے قونصل وحید خلیق نے تجویز دی کہ حکومت تمام تجارتی شعبوں کے لیے سیلز ٹیکس مختص کردے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم دھاگے کی خریداری پر سیلز ٹیکس دے رہے ہیں لیکن خریدار ایف بی آر سے رجسٹراڈ نہیں ہیں۔

اس ضمن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں کہا کہ وہ کابینہ کے اجلاس میں اسمال انڈسٹری پر ٹیکس عائد کرنے کے معاملے کو اٹھائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں