اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا 25 جولائی سے حکومت مخالف مظاہروں کا فیصلہ
اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے پہلے اجلاس میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ملک بھر میں 25 جولائی سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ 11 اراکین پر مشتمل رہبر کمیٹی کی میزبانی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی رہنما اکرم درانی نے کی اور اجلاس میں 25 جولائی کو یوم سیاہ منانے کی حکمت عملی بھی مرتب کرلی گئی جس کے تحت تمام بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: رہبر کمیٹی کے قیام اور چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا فیصلہ
اجلاس کے اختتام پر اکرم خان درانی نے کمیٹی کے دیگر شرکاء کے ہمراہ پریس بریفنگ میں کہا کہ پہلے مجھے بحیثیت کنوینر متفقہ طور پر منتخب کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 11 جولائی کو سینیٹ چیئرمین کے خلاف قرار داد جمع کرائی جائے گی تاہم اگلے سینیٹ چیئرمین کے انتخاب کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں کے مابین ذہنی ہم آہنگی ہے جس کا اعلان بھی 11 جولائی کو ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما کا کہنا تھا کہ رہبر کمیٹی کا کنوینر ہر دو ماہ بعد باری باری ہر سیاسی جماعت سے ہوگا۔
انہوں نے کمیٹی کے فیصلے سے متعلق آگاہ کیا کہ صوبائی سطح پر رابطہ کار کمیٹیاں کا قیام عمل میں لایا جائےگا تاکہ 25 جولائی کو مظاہروں کا اہتمام کیا جا سکے۔
مزیدپڑھیں: اپوزیشن جماعتوں کا آئینی طریقے سے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا فیصلہ
اکرم درانی نے واضح کیا کہ رہبر کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ فاٹا میں پولنگ اسٹیشن میں فوج کی تعیناتی کے لیے جاری نوٹی فیکشن کو منسوخ کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو ڈراف لکھا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ رہبر کمیٹی نے گہری تشویش کا اظہار کیا کہ ملک میں ایک نیا سیاسی ڈھانچہ تشکیل دیاجارہا ہے۔
رہبر کمیٹی کے پہلے کنوینر نے کہا کہ ریاستی ادارے آئین سے بالاتر ہو کر اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے دوسرے امور میں مداخلت کررہے ہیں اور یوں اداروں کو عوام کے مدمقابل لیا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ ایک ذمہ داری سیاسی شخصیت رانا ثناء اللہ کو ہیرون اسمگلنگ کیس میں ڈال دیا۔
رہبر کمیٹی نے پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت دیگر سیاسی رہنماوں کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ 26 جون کو اپوزیشن جماعتوں کی کُل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) میں رہنماؤں نے چیئرمین سینیٹ کو آئینی طریقے سے ہٹانے اور 'دھاندلی زدہ' عام انتخابات کے خلاف 25 جولائی کو 'یوم سیاہ' منانے کا فیصلہ کیا تھا۔
کمیٹی کی سربراہی کا تنازع
اس ضمن میں بتایا گیا کہ اپوزیشن جماعتوں کے مابین رہبر کمیٹی کی سربراہی کا تنازع تاحال حل طلب مسئلہ ہے، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) رہبر کمیٹی کی سربراہی کے معاملےپر اختلاف رائے رکھتے ہیں۔
پیپلز پارٹی رہبر کمیٹی کی سربراہی سنبھالنے کی خواہش مند ہے، دوسری جانب مسلم لیگ (ن) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے کمیٹی کی سربراہی کروانا چاہتی ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ ابتدائی مرحلے میں مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اور اکرم خان درانی نام کنوینر شپ کے لیے زیر غور تھے تاہم پاکستان پیپلز پارٹی نے شاہد خاقان عباسی کو کنوینر بنانے پر آمادگی کا اظہار نہیں۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ رہبر کمیٹی میں پیپلز پارٹی کے نئیر بخاری جبکہ ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال نے شرکت کی۔
یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی (ف) کا 'آل پارٹیز کانفرنس' 26 جون کو بلانے کا اعلان
اجلاس میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔
علاوہ ازیں نیشنل پارٹی سے میر حاصل بزنجو، پشتونخواہ ملی پارٹی سے عثمان کاکڑ، قومی وطن پارٹی سے ہاشم بابر، اے این پی سے میاں افتخار، مرکزی جمعیت اہلحدیث سے شفیق پسروری، جمعیت علماء پاکستان سے اویس نورانی نے بطور اراکین کمیٹی میں شرکت کی۔
واضح رہے کہ اے پی سی کے حالیہ اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ایک کُل جماعتی 'رہبر کمیٹی' تشکیل دی جائے گی جو آئندہ کی مشترکہ حکمت عملی اور اس اعلامیہ کے نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ اجلاس نے فیصلہ کیا کہ سینیٹ کے موجودہ چیئرمین کو آئینی اور قانونی طریقہ کار کے ذریعے ہٹایا جائے گا اور ان کی جگہ نیا چیئرمین لایا جائے گا، جبکہ رہبر کمیٹی سینیٹ کے نئے چیئرمین کے لیے متفقہ امیدوار کا نام بھی تجویز کرے گی۔