مقبوضہ وادی میں کرفیو جاری، محصور کشمیری مشکلات کاشکار

اپ ڈیٹ 06 اگست 2019
شمیر کی ہر گلی ہر موڑ پر بھاری تعداد میں سیکیورٹی اہلکاروں تعینات ہیں—تصویر: اے ایف پی
شمیر کی ہر گلی ہر موڑ پر بھاری تعداد میں سیکیورٹی اہلکاروں تعینات ہیں—تصویر: اے ایف پی

بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد کشمیریوں نے وادی میں تشدد کی نئی لہر شروع ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آرٹیکل 370 کا خاتمے کا مقصد کشمیر کی مسلمان اکثریت والی شناخت تبدیل کرنا ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ وادی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص ارشد وارثی کا کہنا تھا کہ ’آخر کب تک یہ سب کو نظر بند رکھیں گے، آرٹیکل 370 ختم کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ’ہم اپنی نفرت کا اظہار نہیں کرسکتے‘۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے یکطرفہ فیصلے کے بعد بھی کشمیر کی ہر گلی ہر موڑ پر کثیر تعداد میں سیکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کر کے وادی کو جیل میں تبدیل کردیا ہے۔

مزید پڑھیں: ’دوستو اگر ہم بچ نہ سکیں تو باتوں، دعاؤں میں یاد رکھنا‘

واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے آئینی دفعہ ختم کرنے کے ردِ عمل میں احتجاج کے پیشِ نظر کشمیر میں کرفیو نافذ کررکھا ہے جس کے لیے گزشتہ روز مزید 8 ہزار سے زائد فوجی اہلکاروں کو خطے میں بھیج دیا گیا تھا۔

اتوار سے اب تک مقبوضہ جموں اور کشمیر میں تمام تعلیمی ادارے بند، انٹرنیٹ اور موبائل فون سمیت لینڈ لائن سروسز معطل ہیں جس کے باعث پوری وادی بیرونی دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گئی ہے۔

مذکورہ سہولیات نہ ہونے کے باعث مقامی اخبارات آن لائن اشاعت نہیں کرسکے جبکہ کرفیو اور دیگر سختیوں کے باعث بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کو غیر آئینی قرار دے دیا

اس کے ساتھ ساتھ وادی میں روز مرہ کی غذائی اشیا کی قلت ہے، رہائشیوں کی دودھ اور دیگر ڈیری مصنوعات سمیت ادویات تک رسائی مشکل ہوگئی ہے جبکہ گزشتہ کئی روز سے کاروبار بند ہونے کے باعث تاجر برادری بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔

وادی کی صورتحال کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کشمیر سے تعلق رکھنے والی سماجی رضاکار شہلا رشید کا کہنا تھا کہ 40 گھنٹے سے زائد ہوگئے جب ہم نے گھر پر بات کی تھی، گھر کے بارے میں شدید پریشان ہوں اور گھر والوں کی خیریت سے ناواقف ہوں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ بیرونِ ملک سے عید منانے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں کہ وہ واپس کیسے جائیں گے۔

اس ضمن میں ایک استانی نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خطے کے موجودہ بحران کا ذمہ دار بھارت کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ آج ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے ہم نے اپنی شناخت کھو دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’بدقسمتی سے ہمارا سب سے بڑا خوف سچ ثابت ہوگیا‘

انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ کرفیو ختم ہونے کے بعد کیا صورتحال ہوگی لیکن ہمیں محسوس ہوریا ہے کہ ہم بہت برے وقت کی جانب بڑھ رہے ہیں، میرے 2 بچے وادی سے باہر زیرِ تعلیم ہیں جن سے کوئی رابطہ نہیں ہے مجھے معلوم ہے کہ وہ بھی اس صورتحال سے پریشان ہوں گے اور مجھے بھی نہیں معلوم کہ وہ کیسے ہیں۔

علاوہ ازیں کشمیری رہنما سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق سمیت پوری حریت قیادت کو نظر بند کردیا گیا ہے جبکہ 2 سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ گرفتار ہیں۔

دوسری جانب وادی چناب کے ضلعی مجسٹریٹ نے رات گئے احکامات جاری کرتے ہوئے مقامی افراد کو گھروں میں رہنے اور کہیں بھی کسی بھی شہری کو باہر نہ نکلنے کی ہدایت کی جبکہ علاقے کا داخلی راستہ مکمل سیل کر کے کسی بھی گاڑی کو اندر آنے اور باہر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔

اس حوالے سے ایک اور خاتونِ خانہ کا کہنا تھا کہ ’کیا آرٹیکل 370 ختم کرنے سے دہائیوں سے جاری کشمیری جدوجہد ختم ہوجائے گی؟ میں اس بات پر یقین نہیں رکھتی‘۔

مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

دوسری جانب بھارتی حکومت کے فیصلے خلاف لوگ سخت بریشانی کا شکار اور برہم ہیں، ایک مقامی سرگرم کارکن کا کہنا تھا کہ ’بھارتی حکومت کے فیصلے کا سخت رد عمل سامنے آئے گا، وفاقی اکائیاں ریاستی اختیارات مانگ رہی ہیں جبکہ ہماری ریاست کو وفاقی اکائیوں میں تبدیل کرنے کے لیے 2 حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں