مقبوضہ کشمیر میں 'سیکیورٹی لاک ڈاؤن' جاری، شہری زندگی مفلوج

اپ ڈیٹ 09 اگست 2019
سری نگر کے ایک ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ اب تک 50 سے زائد پیلٹ گن، ربڑ بلٹ سے زخمی افراد کو علاج کے لیے لایا گیا ہے — فوٹو: اے پی
سری نگر کے ایک ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ اب تک 50 سے زائد پیلٹ گن، ربڑ بلٹ سے زخمی افراد کو علاج کے لیے لایا گیا ہے — فوٹو: اے پی

سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کی مکمل بندش اور مکمل سیکیورٹی لاک ڈاؤن جاری ہے جس کے نتیجے میں وادی میں شہری نظام مکمل طور پر مفلوج ہوگیا۔

اس کے علاوہ وادی میں سیکیورٹی کے حالیہ انتظامات کی وجہ سے میڈیا کے چند ادارے اپنا سامان اٹھا کر خطے سے نکلنے پر مجبور ہوگئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں اور کشمیر میں گزشتہ چند روز سے بھارتی فوج کے ہزاروں اہلکار سڑکوں پر گشت کررہے ہیں جبکہ دکانیں بند ہیں، اس کے علاوہ گزرگاہوں پر جگہ جگہ خاردار تاریں لگا کر ایک علاقے کو دوسرے علاقے سے علیحدہ کیا گیا ہے اور وادی میں ایسی خاموشی طاری رہی کہ صرف سیکیورٹی اداروں کی گاڑیوں کے سائرن کے علاوہ کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔

نئی دہلی کی جانب سے جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور ہمالیائی خطے کو ریاست سے وفاقی اکائیوں میں تبدیل کرنے کے فیصلے کے بعد سے وہاں جاری سنگین کریک ڈاؤن میں لاکھوں افراد کی زندگی مفلوج ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: کشمیر کے معاملے پر ہمارے ساتھ کون کون کھڑا ہے؟

سری نگر کے شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال میں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کے زیر استعمال پیلٹ گن اور ربڑ کی گولیوں سے زخمی ہونے والے 50 سے زائد افراد کو اب تک طبی امداد کے لیے لایا جاچکا ہے۔

بھارتی حکومت کے خلاف کشمیر کا غصہ کوئی نیا نہیں ہے، اس کی جڑیں 1947 میں برطانیہ سے پاکستان اور بھارت کی آزادی کے بعد یہاں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے یہاں اقوام متحدہ کے زیر انتظام ریفرنڈم کروانے کے جھوٹے وعدے سے ملتی ہیں۔

خطے کے مرکزی شہر سری نگر کے وسط میں لگی خار دار تاروں، رائفل اور ڈھال لیے ہیلمٹ اور خاکی لباس پہنے سپاہیوں کی نگرانی میں چیک پوائنٹس کا سامنا کرنے بچنے کے کے شہری اپنے گھر سے نکلنے میں ہی خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔

شاپنگ مالز، پنساری کی دکانیں اور یہاں تک کے طب خانے بھی بند رہے۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا منتظر ہے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھے گا تو کیا ہوگا، وزیراعظم

اس سے قبل سیکیورٹی کریک ڈاؤن میں شام ڈھلتے ہی محلے کی دکانوں کے دروازے کھول دیے جاتے تھے تاکہ عوام دودھ، آٹا اور بچوں کے غذا جیسی بنیادی ضروریات کی اشیا خرید سکیں لیکن اس مرتبہ یہ بھی واضح نہیں کہ وہ دکانیں کھلی ہیں یا نہیں۔

واضح رہے کہ مقبوضہ وادی کے مقامی افراد ضروری اشیا جمع کرنے کے عادی ہیں کیونکہ انہیں سردیوں کے موسم، جہاں سڑکوں اور مواصلاتی نظام اکثر بند ہوجاتے ہیں، کے لیے ضروری سامان اکٹھا کرنے کی عادت ہوتی ہے۔

لینڈ لائنز، موبائل فونز اور انٹرنیٹ، تمام کی بندش کا مطلب ہے کہ کشمیری خطے کے باہر کسی سے بات تک نہیں کرسکتے اور صرف مقامی کیبل ٹی وی اور ریڈیو کی معلومات پر انحصار کر رہے ہیں۔

32 سالہ رضا میر کا کہنا تھا کہ پیر کے روز انہیں ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی اور انہوں نے جب اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو ان کی اہلیہ اوندھے منہ سڑک پر موجود تھیں اور ان کی آنکھوں سے خون بہہ رہا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں