وفاق کے بعد سندھ حکومت بھی بحریہ ٹاؤن کے 'تصفیہ فنڈ' کے حصول کیلئے کوشاں

اپ ڈیٹ 29 اگست 2019
ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن سے موصول تمام رقم صوبائی حکومت اپنے ترقیاتی منصوبوں پر شفاف انداز میں لگائے گی — فائل فوٹو/بحریہ ٹاؤن
ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن سے موصول تمام رقم صوبائی حکومت اپنے ترقیاتی منصوبوں پر شفاف انداز میں لگائے گی — فائل فوٹو/بحریہ ٹاؤن

کراچی: وفاقی حکومت کے بعد سندھ کی صوبائی حکومت نے بھی بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کے کیسز میں تصفیہ کے لیے جمع کروائے جانے والے فنڈز کے حصول کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے 3 صفحات پر مشتمل درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائی اور جس میں کہا گیا کہ 21 مارچ کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو کراچی کی 16 ہزار 896 ایکڑ زمین سندھ حکومت سے حاصل کرنے پر صوبائی حکومت کو ڈاؤن پیمنٹ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کو مالی سال 19-2018 میں ٹیکس اکٹھا کرنے میں شارٹ فال کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا جس کی وجہ سے صوبائی حکومت کو 605.6 ارب روپے کے بجائے صرف 439 ارب روپے دیے گئے جو 112 ارب کا شارٹ فال اور نظر ثانی شدہ 508 ارب روپے کے بجٹ کے مقابلے میں 74.99 ارب ڈالر کا خسارہ ظاہر کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کا 'تصفیہ فنڈ' خزانے میں جمع کروانے کیلئے حکومت کی درخواست

ان کا کہنا تھا کہ اس ہی طرح صوبائی حکومت کو پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام 19-2018 کے تحت مختص کیے گئے 14.266 ارب روپے میں سے 9.9 ارب روپے ملے ہیں اور صوبائی ریوینیو میں اس شارٹ فال سے ترقیاتی منصوبے مالی طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'ان وجوہات کی بنا پر سپریم کورٹ کو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے جمع کروائی گئی ڈاؤن پیمنٹ سمیت مستقبل میں ہونے والی تمام ادائیگیوں کو بھی صوبائی حکومت کے اکاؤنٹ میں جمع کروانا چاہیے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر بحریہ ٹاؤن سے موصول ہونے والی تمام رقم صوبائی حکومت اپنے ترقیاتی منصوبوں پر وزیر اعلیٰ کی جانب سے قائم کی گئی خصوصی کمیٹی کی نگرانی میں شفاف انداز میں لگائے گی۔

خیال رہے کہ 21 مارچ کو سپریم کورٹ کے جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بحریہ ٹاؤن عملدرآمد کیس میں کراچی کے منصوبے کے لیے 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرتے ہوئے نیب کو ریفرنس دائر کرنے سے روک دیا تھا۔

یہ زمین ہاؤسنگ اسکیم متعارف کرانے کے لیے مختص کی گئی تھی لیکن ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) نے یہ زمین بحریہ ٹاؤن کو دے دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کی 460 ارب روپے کی پیشکش قبول کرلی

تصفیہ کے تحت کراچی کے 16 ہزار 896 ایکڑ پر مشتمل منصوبے کا راولپنڈی کے تخت پڑی کے 5 ہزار 472 کینال سے، مری کے جنگلات اور شاملات کے 4 ہزار 542 کینال سے کوئی تعلق نہیں۔

گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل نے درخواست دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے بحریہ ٹاؤن کو تصفیے کی ادائیگی کے لیے یکم ستمبر 2019 سے 31 اگست 2026 تک کا وقت دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ بحریہ ٹاؤن نے پہلے ہی 25 ارب ادا کردیے ہیں اور 2.5 ارب کی پہلی قسط کے بعد بقیہ ادائیگی 36 ماہ میں مقررہ صورت میں کی جائے گی جس میں یکم ستمبر 2023 سے 4 فیصد سالانہ مارک اپ بھی شامل ہوگا۔

وفاقی حکومت کی درخواست میں آئین کے آرٹیکل 78 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ 'سپریم کورٹ میں رقم جمع کرادی گئی ہے یا جمع کرائی جانی ہے، مذکورہ رقم کو وفاق کے خزانے میں جمع کرایا جانا چاہیے'۔

درخواست میں وضاحت دی گئی کہ 'آرٹیکل 78(2)(بی) کے تحت سپریم کورٹ میں موصول یا جمع کرائی گئی کوئی بھی رقم وفاق کے خزانے میں جمع کرائی جانی چاہیے'۔

آرٹیکل 78(1) کے مطابق وفاقی حکومت کو موصول تمام رقم، وفاق کی جانب سے دیے گئے تمام قرض اور قرض کی ادائیگی کے بدلے لی گئی رقوم مجموعی فنڈ کی شکل اختیار کریں گے جو وفاقی کنسولڈیٹڈ فنڈ کہلائیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Aug 29, 2019 10:57pm
شہریوں کو شامل کرنے سے ان کو علم ہوگا کہ منصوبے کی لاگت کیا ہے، پری فیبریکیٹڈ نظام میں چھوٹا بڑا سسٹم بنانے کی گنجائش ہوتی ہیں، سب کو پتہ ہوگا کہ کہ کس سائز کا پری فیبریکیٹڈ نظام کتنی تعداد یا لمبائی میں لگایا جارہا ہے۔ شہریوں کی شمولیت سے اس کی حفاظت ہوگی اور نقصان پہنچانے والوں کو روکا جاسکے گا، یہ سسٹم کلفٹن میں کام کررہا ہے اور آہستہ آہستہ اسے کہیں بھی لگایا جاسکتا ہے۔ 4 گزارشات ہیں۔ 1) رقم سندھ یا وفاقی حکومت، ایم کیو ایم یا پھر بلدیاتی اداروں کو براہ راست نہ دی جائے۔ 2) عدالت رقم خرچ کرنے کی مکمل نگرانی کرے۔ 3) بنائے گئے منصوبوں میں شہریوں کو مالی طور پر لازمی شامل کیا جائے۔4) رقم بڑے بڑے منصوبوں پر خرچ نہ کی جائے بلکہ چھوٹے مگر پائیدار منصوبوں پر خرچ کی جائے، صوبائی و وفاقی حکومت کے پاس ۔۔۔۔ کے لیے اربوں کھربوں روپے کے بڑے بڑے منصوبے ہیں، مگر چھوٹے کم فنڈز والے مسائل حل نہیں کیے جاتے، کراچی کے شہری ترقیاتی منصوبوں، سرکاری کاموں یا حکومت سے بالکل لاتعلق ہوگئے ہیں، جو کام اچھا برا جیسے ہوتا ہے، ہونے دیتے ہیں، اس میں دلچسپی ہی نہیں لیتے جس کی وجہ سے بعد میں رونا پڑتا ہے۔