مقبوضہ کشمیر: کرفیو کے خاتمے کیلئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ہنگامی مہم کا آغاز

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2019
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے 5 ستمبر سے مہم کا آغاز کیا — فائل فوٹو: اے پی
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے 5 ستمبر سے مہم کا آغاز کیا — فائل فوٹو: اے پی

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے اور وادی میں طویل عرصے سے جاری کرفیو کو ختم کرنے سے متعلق ہنگامی مہم کا آغاز کردیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہونے کی وجہ سے رابطے منقطع ہیں جو لوگوں کی آزادی پر ایک اشتعال انگیز حملہ ہے۔

انسانی حقوق کے نگراں ادارے نے اس طویل بلیک آؤٹ کی وجہ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے 5 سمتبر 2019 سے کشمیر کو بولنے دو (LetKashmirSpeak) کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ہنگامہ آگاہی مہم کا آغاز کردیا۔

عالمی ادارے کا کہنا تھا کہ ان کی اس مہم کا مقصد ہے کہ وادی سے فوری طور پر کرفیو اٹھایا جائے۔

مزید پڑھیں: امریکی قانون سازوں کا کشمیر میں گرفتاریوں، حراستی مراکز پر اظہار تشویش

اس میں مزید کہا گیا کہ چونکہ کشمیر میں لین لائن کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے جس کی وجہ سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران ان کی افسردگی میں کچھ کمی واقع ہوگی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکر پٹیل کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں نافذ کرفیو کو پہلے ہی ایک ماہ گزر چکا ہے، تاہم بھارتی حکومت اسے مزید نہیں چلاسکتی کیونکہ یہ پہلے ہی کشمیری عوام کی زندگیوں کو بہت زیادہ متاثر کرچکی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وادی میں لوگوں کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں، انہیں صحت، اشیائے خورونوش اور ہنگامی سروسز تک کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا جموں کے کچھ علاقوں میں کرفیو کو ختم کردیا گیا ہے جبکہ کشمیر کے زیادہ تر حصوں کے دیگر علاقوں سے رابطے منقطع ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’کیا مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ 50 سال بعد کردار ادا کرے گا؟‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پوری آبادی کو آزادی اظہار رائے سے روکنا اور غیر معینہ مدت کے لیے ان کی نقل و حمل پر پابندی عائد کردینا خطے کو تاریک دور میں لے کر جانے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’نیا کشمیر‘ کشمیریوں کے بغیر تعمیر نہیں ہوسکتا، اس ملک نے کشمیریوں کو ابھی تک نہیں سنا گیا، حکومت کی جانب سے بار بار کہا جارہا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے، لیکن ہم کہنا چاہتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے'۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ انہیں یہ اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ لوگوں کو ہنگامی صورتحال کے باوجود ہسپتالوں تک نہیں پہنچایا جارہا، وہاں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہورہی ہیں، بچوں اور نوجوانوں کو رات کے اندھیرے میں اٹھایا جارہا ہے، عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ مظاہرین پر آنسو گیس اور پیلیٹ گنز کا بے جا استعمال کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: مودی کی حماقت بھارت کو بھی لے ڈوبے گی!

اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ سب وادی میں فوج کی کثیر تعداد میں موجودگی اور انسانی حقوق کی تاریخی خلاف ورزی کے پس پردہ ہورہا ہے۔

مزید کہا گیا کہ لوگوں کے درمیان بے چینی اور غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جبکہ وہ اپنے پیاروں کی خبر لینے سے بھی قاصر ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کا کہنا تھا کہ میڈیا پر بھی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں جس کی حالیہ مثال صحافی گوہر گیلانی کو جرمنی جاتے ہوئے ایئرپورٹ پر ہی روک لینا ہے۔

خیال رہے کہ کشمیر پریس کلب کے حالیہ اعلامیے کے مطابق کم از کم 3 کشمیری صحافیوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ جتنا جلدی ممکن ہوسکے حکومتی مراعات چھوڑ دیں۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں