مراکش: اسقاط حمل کے الزام میں خاتون صحافی کی گرفتاری پر تنازع کا نیا موڑ

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2019
ھاجر الریسونی مراکش کے اخبار الیوم سے وابستہ ہیں—فوٹو: فیس بک
ھاجر الریسونی مراکش کے اخبار الیوم سے وابستہ ہیں—فوٹو: فیس بک

شمالی افریقہ کے ملک مراکش میں گزشتہ ماہ اسقاط حمل کے الزام میں گرفتار کی گئی خاتون صحافی ھاجر الریسونی کے معاملے نے نیا رخ اختیار کرلیا۔

ھاجر الریسونی کو مراکشی پولیس نے گزشتہ ماہ 31 اگست کو گرفتار کیا تھا، تاہم انہیں عدالت میں 2 ستمبر کو پیش کیا گیا تھا۔

پولیس نے انہیں غیر ازدواجی تعلقات استوار کرنے اور اس کی وجہ سے ٹھہرجانے والے حمل ضائع کروانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے رباط کے ایک کلینک سے اسقاط حمل کرایا جب کہ خاتون صحافی نے الزامات کو مسترد کیا ہے۔

خاتون صحافی کے خلاف عدالت میں پیش کیے گئے ثبوتوں سے بھی یہ واضح نہیں کہ انہوں نے اسقاط حمل کرایا جبکہ جس خاتون ڈاکٹر پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ھاجر الریسونی کا اسقاط حمل کیا انہوں نے بھی پولیس کے دعووں کو مسترد کردیا تھا۔

ھاجر الریسونی نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے—فوٹو: الیوم 24
ھاجر الریسونی نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے—فوٹو: الیوم 24

تاہم اب خبر سامنے آئی ہے کہ ھاجر الریسونی کی جانب سے اسقاط حمل کرانے کے معاملے میں نئے ثبوت سامنے آئے ہیں، جس سے معاملہ مزید متنازع بن گیا۔

مراکش کی ویب سائٹ ’موراکو ورلڈ نیوز‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ھاجر الریسونی کے خلاف عدالت میں نئے ثبوت پیش کیے گئے ہیں، جن میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق عدالت میں پیش کیے گئے ھاجر الریسونی کے نئے میڈیکل رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ خاتون صحافی کا اسقاط حمل کیا گیا۔

ساتھ ہی میڈیکل ریکارڈ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ھاجر الریسونی کا یہ پہلا اسقاط حمل نہیں تھا۔

رپورٹ کے مطابق میڈیکل ریکارڈ میں دعویٰ کیا گیا کہ ھاجر الریسونی نے 6 ماہ قبل بھی حمل ضائع کروایا تھا۔

عدالت میں پیش کیے گئے میڈیکل ریکارڈ رباط کے مشہور ترین ابن سینا ہسپتال کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں۔

تاہم دوسری جانب ھاجر الریسونی کے ادارے ’الیوم اخبار‘ نے رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے غیر مستند ثبوت قرار دیا۔

خیال رہے کہ ھاجر الریسونی تاحال پولیس کی تحویل میں ہیں اور اگر ان پر اسقاط حمل کا الزام ثابت ہوگیا تو انہیں قید اور جرمانے کی سزا ہوگی۔

عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ کے مطابق خاتون صحافی پہلے بھی اسقاط حمل کرا چکی ہیں—فوٹو: فیس بک
عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ کے مطابق خاتون صحافی پہلے بھی اسقاط حمل کرا چکی ہیں—فوٹو: فیس بک

مراکش میں اسقاط حمل غیر قانونی ہے اور اس میں ملوث پائے جانے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔

مراکش میں اس وقت ہی اسقاط حمل کی اجازت دی جاتی ہے جب ماں کی زندگی یا پیٹ میں پلنے والے بچے کی صحت کے حوالے سے کوئی پیچیدگی ہو۔

شمالی افریقہ کے ملک میں ’ریپ‘ اور ناجائز جنسی تعلقات کے بعد ہونے والے حمل کو ضائع کروانا بھی غیر قانونی ہے اور 'ابارشن' کرنے والے ڈاکٹرز اور افراد کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔

مراکش کی اسمبلی نے 2016 میں اسقاط حمل سے متعلق ایک نئے بل کا مسودہ تیار کیا تھا، جس کے تحت ’ریپ‘ اور ’ناجائز جنسی تعلقات‘ کے بعد ہونے والے حمل کو شواہد پیش کیے جانے کے بعد ضائع کرنے کی قانونی اجازت ہوگی، تاہم اس بل پر تاحال قانون سازی نہیں ہوسکی۔

ھاجر الریسونی کو اسقاط حمل کے الزام میں گرفتار کرنے پر مراکش میں نیا تنازع شروع ہوگیا ہے، جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں نے خاتون صحافی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا ہے، وہیں سوشل میڈیا پر بھی عام لوگ ان کی گرفتاری کی مذمت کر رہے ہیں۔

ھاجر الریسونی کے اہل خانہ اور ادارے نے ان کی گرفتاری کو سیاسی انتقامی کارروائی سے جوڑا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ حکومت ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے جھوٹے مقدمات بنا رہی ہے۔

ھاجر الریسونی پر الزام ثابت ہوگیا تو انہیں قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے—فوٹو: ڈبل اے ڈاٹ کام ٹی آر
ھاجر الریسونی پر الزام ثابت ہوگیا تو انہیں قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے—فوٹو: ڈبل اے ڈاٹ کام ٹی آر

تبصرے (0) بند ہیں