ماروی، بَر، بارش اور تَھر

ماروی، بَر، بارش اور تَھر

ابوبکر شیخ

نہ جانے کتنے برسوں بعد دل کھول کر برکھا برسی ہے۔ اچھا ہے، کیونکہ پانی اور انسان کا رشتہ روزِ اول سے بقائے وجود کے لیے لازم ہے جبکہ ریگستان کے وجود میں پانی کی اتنی پیاس پنہاں ہے کہ بادل جتنے بھی برسیں اس کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔

یہی وجہ ہے کہ میری نظر جہاں تک جاتی ہریالی اور ریت کے ٹیلوں کا رومانس دکھائی دیتا۔ کسی کسی ٹیلے پر کچھ جھونپڑیاں بھی نظر آتیں۔ کسی درخت کے قریب کنواں بھی نظر آجاتا۔ میں نے اکثر دیکھا ہے جہاں کنواں ہوتا ہے وہاں سر جھکائے ایک درخت بھی کھڑا ہوتا ہے۔ مجھے نہیں پتا کہ کون کس کو زیادہ چاہتا ہے مگر انہیں اکثر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے پایا ہے۔

صحرائے تھر سے منسوب یہ کہاوت کافی مشہور ہے کہ تھر دراصل برسنے کے بعد ’تھر‘ ہوتا ہے۔ اگر بادل نہ برسیں تو یہ’بر‘ ہی رہتا ہے۔

بر اس لیے کہا جاتا ہے کہ کم بارشیں ہونے سے گھاس اور فصل بہت کم اُگتی ہیں اور ایک دو ماہ میں سوکھ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے سبزہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ زیرِ زمین پانی کی سطح اس حد تک گر جاتی ہے کہ پانی کڑوا ہونے لگتا ہے۔ اس طرح تھر باسیوں کے آنگن میں ویرانیاں بسیرہ کرنے لگتی ہیں کیونکہ ہزاروں خاندان بیراجی علاقوں (بدین، سجاول اور ٹھٹہ) کی طرف نقل مکانی شروع کردیتے ہیں، تاہم اس برس بارانِ رحمت برسنے سے یہ صحرائی علاقہ ’بر‘ سے ’تھر‘ ہوگیا ہے۔

برکھا کے بعد تھر کا ایک نظارہ—تصویر ابوبکر شیخ
برکھا کے بعد تھر کا ایک نظارہ—تصویر ابوبکر شیخ

تھر کا ایک خوبصورت نظارہ—تصویر ابوبکر شیخ
تھر کا ایک خوبصورت نظارہ—تصویر ابوبکر شیخ

کچھ دن پہلے میں جب ایک دن کے لیے تھر گیا تو بادل کافی برس چکے تھے اور مزید برسنے کا موڈ رکھتے تھے۔ میں ریت کے ٹیلوں پر سے بنے ہوئے تارکول کی سڑک پر سفر کر رہا تھا۔ مویشیوں کے ریوڑ تھے جو واپس اپنے گھروں اور کھیتوں کی طرف جا رہے تھے۔ مگر یہ واپسی کہاں سے ہو رہی تھی؟ دراصل جب یہاں زیادہ بارشیں نہ برسیں اور توقع کے مطابق گھاس نہیں اُگتی تو یہ تھر کے باسی ہزاروں مویشیوں کے ریوڑ جنوبی سندھ کے علاقے (بدین، سجاول، ٹھٹہ) کی طرف چلے جاتے ہیں، جہاں دھان کی فصل کی کٹائی کے بعد گھاس وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے۔

ریوڑ کی رہنمائی آگے چلنے والا ایک شخص کر رہا ہوتا ہے جبکہ 2 سے 3 افراد پیچھے ہوتے ہیں تاکہ مویشیوں کو آنے جانے والی ٹریفک یا کسی اور طرف جانے سے روکا جاسکے۔ میں نے ریوڑ کے آخر میں چلنے والے ایک آدمی کو روکا۔ اس کے ایک کاندھے پر کپڑے میں لپٹی پانی کی بوتل اور دوسرے پر ’سولر‘ کی چھوٹی سی پلیٹ لٹکی ہوئی تھی تاکہ موبائل ہر وقت چارج رہے۔

دورِ جدید کا تقاضا ہے کہ اب چائے یا روٹی کے بغیر تو کام چل جائے گا مگر موبائل کے بغیر انسانی وجود کو ہی ادھورا تصور کیا جانے لگا ہے۔

خیر، میں نے پوچھا، ’کہاں سے آ رہے ہیں؟‘

’سندھ سے۔‘ اس نے جواب دیا۔

’کس شہر سے؟‘

’گولاڑچی سے، 8 ماہ کے بعد واپس جا رہے ہیں۔‘

100 سے زائد گائے پر مشتمل اس ریوڑ کو کُل 4 آدمی سنبھالے ہوئے تھے۔ یہاں ایک بات نوٹ کریں، اس شخص نے یہ کہا کہ ہم سندھ سے آرہے ہیں، آپ تھر جانے والے کسی بھی تھری سے یہ سوال کریں گے تو جواب یہی ملے گا۔ اس کا یہ قطعاً مقصد نہیں ہے کہ تھر سندھ میں نہیں ہے مگر جہاں زمینی حالتیں بدلیں گی تو نام کی بھی کایا پلٹ ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ لباس، زبان، عادات اور اطوار میں بھی بڑا فرق آئے گا۔ ناموں کی اُلٹ پھیر کیوں اور کیسے ہوتی ہے؟ اس موضوع کو کسی دوسرے دن زیرِ بحث لائیں گے۔

برسات کے بعد تھر میں رونقیں لوٹ آئی ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
برسات کے بعد تھر میں رونقیں لوٹ آئی ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

تھر کا ایک نظارہ—تصویر ابوبکر شیخ
تھر کا ایک نظارہ—تصویر ابوبکر شیخ

آپ تصور کریں کہ ہزاروں برس پہلے جب اس صحرا پر پانی تھا تب اس کی گہرائی کتنی رہی ہوگی۔ تب بھی ان پانیوں کی گہرائیوں میں پانی کی ایک کائنات بستی ہوگی۔ اب جب سونامی جیسے طوفانوں کی وجہ سے یہاں سے پانی روٹھ کر چلا گیا ہے، تب بھی ایک کائنات بستی ہے اس تھر کی زمین پر۔

میں ٹیلوں کی ہریالی کو دیکھتا دیکھتا جب ’ویراواہ‘ پہنچا تو ریت کے ٹیلے اچانک سے غائب ہوگئے۔ بالکل ایسے جیسے چھوٹا بچہ آپ سے کسی بات پر ناراض ہوکر آپ کی اُنگلی چھوڑ دے اور منہ موڑ کر بیٹھ جائے۔ جیسے ریت کے ٹیلے ’کچھ جو رن‘ کے اس میدان سے روٹھ کر شمال کی طرف منہ موڑ کر بیٹھ گئے تھے۔

ویراواہ اپنے زمانے میں مشہور بندرگاہ اور جین مت کے پیروکاروں کا ایک بڑا بیوپاری مرکز رہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس بندرگاہ پر سیکڑوں بیوپاری جہاز لنگر انداز رہتے تھے۔ یہاں سے منسلک بہت ساری عشقیہ داستانیں ہیں جو لوک کہانیوں کا لباس پہنے اب بھی لوگوں کے دلوں میں بستی ہیں۔ تاہم اب یہاں نہ کوئی بندرگاہ ہے نہ کوئی جینی بیوپاری، بس نام ہے جو اب بھی کسی برگد کی پیڑ کی طرح لوگوں اور تاریخ کے اوراقوں میں ہرا بھرا ہے۔

ننگر پارکر میں جین مندر—تصویر ابوبکر شیخ
ننگر پارکر میں جین مندر—تصویر ابوبکر شیخ

ننگرپارکر—تصویر ابوبکر شیخ
ننگرپارکر—تصویر ابوبکر شیخ

ویراواہ کے جنوب میں آپ کو سپاٹ زمین ملے گی۔ البتہ ’کارونجھر‘ کی پہاڑی کی ابتدا یا انتہا یہیں پر ہوتی ہے۔ اس ابتدا اور انتہا پر ہم جب ساگر خاصخیلی کے گاؤں پہنچتے ہیں تو جنوب میں کارونجھر پہاڑی کہرے میں گھری ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کہرے میں ایک سحر بستا ہے جو آپ کو اپنی طرف دھیرے سے بلاتا ہے۔ اگر آپ اس کی خوبصورتی سے متاثر ہیں تو اس کے بلانے کی آواز آپ کے کانوں تک ضرور پہنچتی ہے۔

ساگر خاصخیلی ایک اچھے نثرنگار، تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اور پرائمری اسکول ٹیچر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ تھر کے حالات پر گہری نظر بھی رکھے ہوئے ہیں۔ میں نے تھر کے حالات سے متعلق سوال کیا تو ایک تفصیلی جواب آیا، ’ویسے تو تھر کو ہم 4 بڑے حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اگر مزید گہرائی میں جائیں تو ان 4 حصوں کو مزید 5 حصوں میں بانٹ سکتے ہیں، جن کے الگ الگ نام ہیں۔ مگر میں اس کو 2 حصوں میں دیکھتا ہوں۔ ایک وہ حصہ جس کو آپ دیکھتے آئے ہیں یعنی جہاں ریت کے ٹیلے ہیں اور دوسرا یہ ’پارکر‘ والا حصہ جہاں زمین ہموار ہے۔ اس میدانی زمین پر پانی کو قابو میں رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ یہاں کچھ ڈیم بھی بنے ہوئے ہیں اور چونکہ یہاں مٹی ہے جس میں ریت کی بہت کم مقدار ہے تو یہ پانی کو زیادہ وقت تک محفوظ بھی رکھ سکتی ہے۔

مگر جہاں ریت کے ٹیلے ہیں وہاں بارش کا پانی جلد ریت کے اندر چلا جاتا ہے اس لیے پہلی بارش کے بعد زمین میں ہل چلا کر بیج بو دیے جاتے ہیں پھر ایک دو بارشوں کا انتظار کیا جاتا ہے۔ پھر یہ تو ’توکل‘ ہے کہ آسمان برسے یا نہ برسے۔ اگر مقررہ وقت پر برس گیا تو آنے والا برس آسانی سے کٹ جائے گا۔ اگر نہیں برسا تو ساری محنت اکارت ہی جانی ہے۔ توکل جو ہوا۔‘

ابھی ان کی بات پوری نہیں ہوئی تھی اور میں نے پوچھ لیا کہ پھر ‘یہاں پورے برس کی خوراک اور پانی کا بندوبست کیسے ہوتا ہوگا؟‘

جواب آیا کہ ’ہوجاتا ہے۔ حالات آپ کے استاد ہیں۔ زندگی ان کے سکھائے ہوئے ڈگر پر ہی پنپتی ہے۔ بارش کے بعد خوراک سارے تھر میں اُگ آتی ہے۔ بیلوں اور جھاڑیوں کی شکل میں۔ دیکھیں جیسے کچھ سبزیوں کو تازہ پکا کر کھایا جاتا ہے اور ان میں سے بہت ساری ایسی سبزیاں ہیں جن کو اُبال کر سکھادیا جاتا ہے اور خشک ہوجانے کے بعد انہیں گھروں میں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ سال بھر انہی کا سالن بنا کر کھایا جاتا ہے۔ ساتھ یہ بھی ذہن میں ضرور رکھنا چاہیے کہ یہاں 2 اقسام کی خوراکیں اُگتی ہیں، ایک وہ جن کے بیج فطری طور پر سفر کرتے کرتے صحرا کی زمین میں خود کو سما لیتے ہیں، بلکہ میں یہ کہوں گا کہ یہ بیج خود فطرت ہی بوتی ہے۔ وہ بارشوں کے موسم میں اُگ جاتے ہیں، جبکہ دوسری خوراکیں وہ ہیں جو انسان بوتا ہے جیسے جوار، مکئی، سرسوں، گندم وغیرہ سو اس طرح پیٹ گزر ہی ہوجاتا ہے۔ پھر مویشی ہم تھریوں کی زندگیوں میں کافی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ دودھ اور مکھن کے سوا یہ ہماری معاشی ضرورتوں کو بھی پورا کرتے ہیں۔ اگر ہمیں بیماری یا دیگر موقعوں پر پیسوں کی ضرورت ہو تو ہم ان کو بازار میں بیچ کر اچھی رقم حاصل کرلیتے ہیں۔ ہم تھرباسی جیسی بارش سے محبت کرتے ہیں ایسی ہی محبت اپنے مویشیوں سے بھی کرتے ہیں کہ مشکل دنوں کے بھنور سے یہی ہمیں نکالتے ہیں۔‘

ساگر کا یہ مختصر مگر معلوماتی جواب مجھے تھر کے حالات کی ترجمانی کرتا محسوس ہوا کہ تھر کا برس: بارش، خوراک اور مویشیوں کی تکون میں ہی اپنا سفر مکمل کرتا ہے۔

میں کارونجھر، ننگرپارکر کی تاریخی گلیاں اور بھوڈیسر کا تالاب دیکھنے کے بعد محمود شاہ بیگڑہ کی 1505ء میں بنائی گئی تاریخی اور خوبصورت مسجد پہنچا جو اب تک آباد ہے اور جہاں آج بھی پنج وقتہ اذان گونجتی ہے۔ (محمود شاہ 1459ء سے 1511ء تک گجرات کا حاکم رہا۔ ان دنوں میں ننگرپارکر اُس کی حکومت کا حصہ رہا۔)

اس مسجد کے باہر درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں مقامی نیم حکیم تھر کی جڑی بوٹیاں بیچتے ہیں اور لوگ خریدتے بھی ہیں کہ روزی روٹی دینے کا وعدہ اوپر والے نے کیا ہے۔

مسجد محمود شاہ بیگڑہ—تصویر ابوبکر شیخ
مسجد محمود شاہ بیگڑہ—تصویر ابوبکر شیخ

ننگر پارکر—تصویر ابوبکر شیخ
ننگر پارکر—تصویر ابوبکر شیخ

میں نے ننگرپارکر اور کارونجھر سے دل ہی دل میں اجازت لی اور پھر ملیر کے لیے روانہ ہوگیا۔ ملیر پہنچا تو سورج کے ڈھلنے میں ابھی کچھ دیر تھی، مگر شام کی پرچھائیاں زمین پر اُتر آئی تھیں۔ مرد، عورتیں اور بچے تھے جو گاڑیوں پر آتے جاتے، گھومتے پھرتے، گھوڑوں اور اونٹوں پر بیٹھتے اور چلے جاتے۔ پھر پلک جھپکنے کے ساتھ ہی دوسری گاڑیاں آجاتیں اور ایک بار پھر جمگھٹا لگ جاتا۔ میں گھاس پھوس کی بنی کٹیا میں لکڑی کے بینچوں پر بیٹھا تھا اور الاؤ پر پکتی چائے پر میری نظریں گڑی ہوئی تھیں، جہاں شعلوں سے زیادہ دھواں اُٹھ رہا تھا مگر اتنا تو یقین تھا کہ اس الاؤ پر چائے ضرور تیار ہوجائے گی۔

یہ ساری چہل پہل تھر کے ملیر میں اس جگہ پر لگی ہوئی تھی جس کو ’بھالوا‘ کہتے ہیں، اور اس جگہ کی وجہ شہرت ہے ’ماروی‘ کا وہ کنواں ہے جہاں سے عمرکوٹ کے حاکم نے ماروی کے حسن و جمال سے متاثر ہوکر اسے اغوا کیا تھا۔

بھالوا میوزیم—تصویر ابوبکر شیخ
بھالوا میوزیم—تصویر ابوبکر شیخ

ماروی کا کنواں—تصویر ابوبکر شیخ
ماروی کا کنواں—تصویر ابوبکر شیخ

اس کہانی کے حوالے سے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے ’شاہ جو رسالو‘ میں 11 داستانوں پر مشتمل ’سُر ماروی‘ موجود ہے۔

اس مشہور لوک کہانی کا زمانہ (1355ء سے 1390ء) عمر سومرو کی بادشاہی کے زمانے کا ہے۔ اس زمانے میں تھر کے علاقے میں ملیر ایک سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ میں نے یہاں کے ایک تاریخ دان محترم حاجی محمد کنبھار سے ملیر سے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ، ’ملیر یقیناً ماروی کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا علاقہ ہے۔ اس کے علاوہ ملیر کی اور خاصیت یہ بھی ہے کہ پورے تھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ جھاڑیاں، درخت اور بیلیں یہیں اُگتی ہیں۔ سب سے زیادہ جنگلی حیات بھی یہیں پائی جاتی ہے۔ آپ یوں سمجھ لیجیے کہ ماروی اور ملیر ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ ماضی قریب میں ماروی اور ملیر کے ناموں کو سیاسی نعروں میں بھی استعمال کیا گیا، (تحریک بحالی جمہوریت یا ایم آر ڈی تحریک میں بینظیر بھٹو کے لیے یہ نعرہ بنا تھا، ’ماروی ملیر جی، بینظیر بینظیر‘۔)

ننگر پارکر کی ایک گلی—تصویر ابوبکر شیخ
ننگر پارکر کی ایک گلی—تصویر ابوبکر شیخ

اب مختصراً اس لوک کہانی کو بھی سُن لیجیے،

’اس علاقے میں ’پالنے‘ نام کا ایک دہقان رہتا تھا جس کا تعلق مارُو قوم سے تھا۔ غریب پالنے اور اس کی بیوی ’ماڈوئی‘ سارا دن محنت مزدوری کرتے تھے، ان کی گزر اوقات کے لیے جنگلی پھل پھولوں کے علاوہ دو ایک کھیت بھی تھے۔ جن میں ’پھوگ‘ نامی ایک ہاری کے ساتھ شراکت داری کی بنیاد پر کھیتی باڑی کا کام بھی کرتے تھے۔ پالنے کی ایک خوبصورت لڑکی تھی، جس کا نام ’ماروی‘ تھا۔ وہ اس قدر حسین تھی کہ نہ صرف ملیر میں بلکہ قرب و جوار کے علاقوں میں بھی اس کے بے مثال حُسن و جمال کا شہرہ تھا۔ پھوگ ان کی لڑکی ماروی کو بہت چاہتا تھا مگر چونکہ اس کے ماں باپ نے ماروی کا رشتہ اپنے ایک رشتہ دار ’کھیت‘ کے ساتھ طے کردیا تھا اس وجہ سے پھوگ کو ’انکار‘ میں جواب ملا۔ اس جواب نے پھوگ کو بڑا صدمہ پہنچایا، پھر یہ صدمہ انتقام میں بدل گیا۔ وہ انتقام لینے کے لیے ’عمرکوٹ‘ کی طرف نکل پڑا اور بڑی کوشش کے بعد ’عمر بادشاہ‘ کی دربار میں شرف باریابی حاصل کی۔

عمر کوٹ—ابوبکر شیخ
عمر کوٹ—ابوبکر شیخ

’پھوگ نے عمر بادشاہ کے سامنے ماروی کی خوبصورتی کی خوب تعریفیں کیں۔ ان تعریفوں نے بادشاہ کو ماروی کو حاصل کرنے کے لیے اُکسادیا اور وہ پھوگ کے ہمراہ بھیس بدل کر ملیر کی طرف چل دیا۔ صبح سویرے کنویں پر اپنی سہیلیوں کے ہمراہ آنے والی ماروی پر جب عمر سومرو کی نظر پڑی تو وہ دم بخود رہ گیا۔ وہ گھات لگائے بیٹھا رہا، پھر ایک دن موقع پاتے ہی اس کنویں سے ماروی کو اٹھالیا اور اونٹ پر بٹھا کر اپنے ساتھ عمرکوٹ لے گیا، جہاں ماروی کو قید میں ڈال دیا گیا۔

’ماروی کو بولا گیا کہ وہ محل کی رانی بن جائے مگر ماروی کو نہ محل متاثر کرسکے، نہ شاہانہ کپڑے اور نہ طرح طرح کے طعام۔ انکار عمر کو کہاں برداشت ہونا تھا اس لیے ماروی پر سختیاں کی گئیں۔ اس کو محل کے بالا خانے میں زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ مگر ان تمام سختیوں اور مشکلات کے بعد بھی وہ اپنے ارادے پر قائم رہی کہ ملیر ہی اس کا سب کچھ ہے۔ وہاں کی زمین، درخت، بیلیں، مویشی، لوگ، پرندے اس محل اور اس کی آسائشوں سے کہیں زیادہ اہم اور مُقدس ہیں۔

ماروی قید میں تھی کہ بارش کا موسم آگیا اور اس کو اپنے پیارے وطن کے سرسبز و شاداب مناظر یاد آنے لگے۔ اپنے پیاروں سے جدا ہونے کے زخم اور تازہ ہوگئے۔ نااُمیدی اور مجبوری کا احساس شدت پکڑ گیا۔ آخرکار ایک دن اس نے عمر کو بلوا کر کہا، ’ممکن ہے کہ میں ماروؤں اور ملیر کے سوگ میں یونہی تڑپ تڑپ کر جان دے دوں اس لیے درخواست کرتی ہوں کہ میرے مرنے کے بعد میری لاش، ملیر پہنچا دینا تاکہ میری لاش ملیر کی مٹی میں دفن ہوسکے۔‘ یہ سن کر عمر کے دل میں رحم آیا اور اس نے ماروی کو آزاد کردیا۔‘

بھالوا—تصویر ابوبکر شیخ
بھالوا—تصویر ابوبکر شیخ

اب اس کہانی کا آخری اور دوسرا حصہ ’تاریخ طاہری‘ کے مصنف ’طاہر محمد نسیانی‘ سے سنتے ہیں:

’جب ماروی عمر سومرو کی قید سے چھوٹ کر ملیر واپس آئی تو اس کا منگیتر ’کھیت‘ کچھ بدگمان سا رہنے لگا۔ اس بات کا علم نہ جانے کس طرح بادشاہ عمر کو بھی لگ گیا اور اسے خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری عدم توجہی سے ماروی کو نقصان پہنچے، لہٰذا وہ اپنے ساتھ ایک بڑا فوجی لشکر ملیر لے آیا اور دھمکی دی کہ کھیت نے جو رویہ ماروی سے اختیار کیا ہے وہ غلط ہے جس کی وجہ سے میرے کردار پر بدنما داغ لگتا ہے۔ تب ماروی بادشاہ کے سامنے آتی ہے اور کہتی ہے، ’اے عمر! ہم غریب تیری رعایا میں شامل ہیں۔ تم نے مجھے ایک برس تک اپنے محل میں رکھا اس لیے ان کی بدگمانی حق بجانب ہے۔ یہ اگر مجھے مار بھی دیں تو مورد الزام نہ ٹھہرائے جائیں گے۔‘ ماروی کی یہ باتیں سن کر عمر بہت پشیمان ہوا اور کہا کہ ’میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ماروی کی عفت و عصمت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ وہ بالکل پاک ہے۔

آخرکار پاک دامنی پرکھنے کے لیے یہ طے ہوا کہ دہکتی آگ میں لوہے کی ایک موٹی سلاخ کو انگارے جیسا سُرخ ہونے تک گرم کیا جائے اور پھر ماروی اس دہکتی سلاخ کو اپنے ہاتھوں سے اُٹھائے۔ جب ماروی نے وہ گرم سلاخ ہاتھوں سے اُٹھائی تو اسے کچھ نہیں ہوا۔ یہ دیکھ کر سب کو یقین ہوگیا کہ ماروی پاک دامن ہے۔ اس طرح اس کہانی کا اختتام ہوتا ہے۔‘

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنی شاعری میں، اس لوک داستان کو بڑی محبت، احترام اور گہرائی سے تخلیق کیا ہے۔ میں یہاں اس کے رسالے میں سے ’سُرماروی‘ کے پہلے داستان کا پہلا بیت یہاں تحریر کر رہا ہوں۔

اَلَسۡتُ بِرَبِّڪُمۡ جَڏِهِنۡ ڪَنَ پِيومَ،

قَالُوۡ بَلا قَلَبَ سين، تڏهن تِت چيوم،

تنهين وير ڪيومَ، وَچَنَ ويڙهيچَنَ سين.

ترجمہ

خدا شاہد ہے جب روحوں نے باہم،

کیے روز اول کچھ عہد و پیماں

نہ جانے کیوں اسی دن سے ہیں مجھ کو

بہت پیارے یہ سب نادار دہقاں

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے ’سُرماروی‘ کو تمثیلی رنگ میں ایسا رنگا ہے کہ، ماروی کا درد اس دھرتی کا درد بن جاتا ہے اور عمر کا کردار اس دھرتی کے ان سارے لوگوں کا کردار بن جاتا ہے جو اپنی طاقت کے بل بوتے پر ہر کمزور انسان کو اپنے مفادات کے لیے شکار بناتے ہیں۔لطیف سائیں نے اس سُر میں جہاں تھر کی خوبصورتی، وہاں اُگنے والے درختوں، جھاڑیوں، بیلوں اور بوٹیوں کا ذکر کیا ہے وہیں لوگوں کے دُکھ و درد اور موسموں کو بھی بڑے مفصل انداز میں بیان کیا ہے۔

یہ کتھا قریب 600 برسوں سے ان ریت کے ٹیلوں اور یہاں کے چونروں (جھونپڑیوں) کے آنگنوں میں تپتی دوپہروں اور سردیوں کے الاؤ کے گرد دہرائی جاتی رہی ہے۔ یہ کہانی دراصل حب الوطنی کا جذبہ ہے جو 600 برسوں سے سندھ کے باسی ایک سے دوسری نسل میں منتقل کرتے چلے آرہے.


حوالہ جات:

۔ ’رسالہ شاہ عبداللطیف بھٹائی‘۔ مترجم: شیخ ایاز۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی

۔ ’تاریخ طاہری‘۔ طاہر محمد نسیانی ۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔