میڈیا کی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینی چاہیے، برطانوی رپورٹ

اپ ڈیٹ 09 ستمبر 2019
برطانوی حکومت کی خارجہ امور کی کمیٹی کے مطابق پاکستان میں بھی آزادی صحافت کا مستقبل دھندلا ہے۔ — اے ایف پی/فائل فوٹو
برطانوی حکومت کی خارجہ امور کی کمیٹی کے مطابق پاکستان میں بھی آزادی صحافت کا مستقبل دھندلا ہے۔ — اے ایف پی/فائل فوٹو

لندن: برطانوی ادارے کا کہنا ہے کہ مطابق کی آزادی کے مخالفت کرنے والوں کو شرم دلانی چاہیے اور انہیں بین الاقوامی رابطوں کے ذریعے سزا دیتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کی جانی چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت کی اثرو رسوخ رکھنے والی خارجہ امور کی کمیٹی کی رپورٹ میں صحافیوں پر جسمانی، الیکٹرانک یا مالی دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے دفتر خارجہ سے 10 مرکزی نکات طے کرکے صحافیوں کی مدد کرنے کا کہا گیا۔

مزید پڑھیں: میڈیا کی آزادی محدود کرنے کی کوششوں پر سی پی این ای کا اظہار تشویش

خارجہ و کامن ویلتھ آفس (ایف سی او) سے صحافیوں کے استحصال پر حکومت اگر تحقیقات کرنے اور سزا دینے میں ناکام ہوجاتی ہے تو اس کے لیے بین الاقوامی میکانزم کی حمایت کرنے کا کہا گیا، میڈیا پر سوالات اٹھانے والوں کی عوامی سطح پر تذلیل کرنا اور ان پر پابندیاں عائد کرنا، ایف سی او کی محکمہ داخلہ کے ساتھ مل کر دھمکیوں کا سامنے کرنے والے صحافیوں اور ان کے اہلخانہ کو ویزا جاری کیے جانے کے لیے مل کر کام کرنا وغیرہ کا کہا گیا۔

رپورٹ میں متعدد ممالک کی مثال پیش کی گئی جن میں پاکستان بھی شامل ہے جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہاں آزادی صحافت کا مستقبل دھندلا ہے۔

کمیٹی کے چیئرمین ایم پی ٹوپ توگندھات کا کہنا تھا کہ 'برطانیہ کو صحافیوں کے ساتھ برے رویے کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہماری حکومت انسانی حقوق کے اوپر تجارت کو ترجیح دے رہی ہے، ہمیں واضح کرنا ہوگا کہ جو میڈیا کی آزادی کی مخالفت کرتے ہیں انہیں سزا دی جائے'۔

جہاں کمیٹی کے اراکین، 13 ایم پیز نے محکمہ خارجہ کے آزادی صحافت کے مسائل پر اٹھائی گئی آواز کا اعتراف کیا وہیں دستاویزات میں نشاندہی کی گئی کہ اس مسئلے پر کام بہت سست روی کا شکا ہے اور آئندہ کے اقدام کے بارے میں بھی کوئی خاص معلومات نہیں ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: یوم آزادی صحافت اور بے سہارا صحافی

خیال رہے کہ محکمہ خارجہ کمیٹی کو دارالعوام (ہاؤس آف کامن) کی جانب سے دفتر خارجہ کے احتساب کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

کمیٹی اپنی مرضی سے انکوائری کا فیصلہ کرتی ہے اور پھر شواہد اکٹھے کرتی ہے جسے بعد ازاں رپورٹ کے طور پر شائع کیا جاتا ہے۔

'میڈیا فریڈم از انڈر اٹیک' (میڈیا کی آزادی حملے کا شکار) کے نام سے جاری رپورٹ میں بتا گیا کہ بی بی سی سمیت متعدد ممالک کے صحافیوں کی آزادی کو خدشات لاحق ہیں، یونیسکو کے چیئرمین کمیٹی کے سامنے میڈیا کی آزادی کے لیے شوہد پش کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔

شواہد کی جانب سے پیش کیے گئے کیسز میں ایف سی او کی جمال خاشقجی کے کیس میں واضح موقف اپنانے میں ناکامی کی بات کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2018 میں استبول میں سعودی سفارتخانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے پر ایف سی او سعودی حکام پر تنقید کرنے میں ناکام رہی تھی'۔

تبصرے (0) بند ہیں