برطانیہ کے سابق وزیراعظم نے بریگزٹ تقسیم پر معذرت کرلی

اپ ڈیٹ 15 ستمبر 2019
کیمرون نے بریگزٹ کی مخالفت کی تھی اور وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیا تھا—فائل فوٹو:رائٹرز
کیمرون نے بریگزٹ کی مخالفت کی تھی اور وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیا تھا—فائل فوٹو:رائٹرز

برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حوالے سے ریفرنڈم کروانے والے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے ملک میں ہونے والی تقسیم پر معذرت کرلی۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے لیے ریفرنڈم کے بعد ہونے والی تقسیم پر انہیں افسوس ہے جہاں عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے ووٹ دیا تھا۔

ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا کہ ‘میں بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج کے حوالے سے ہر دن سوچتا ہوں اور اگلے قدم پر کیا ہوگا اس پر بہت پریشان ہوتا ہوں’۔

انہوں نے ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں جلد شائع ہونے والی اپنی یاد داشتوں کے حوالے سے تفصیلی بات کی۔

یاد رہے کہ ڈیوڈ کیمرون نے جون 2016 میں وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دیا تھا کیونکہ وہ یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی کے مخالف تھے جبکہ ان کی حکمران جماعت کے دیگر رہنما بریگزٹ کے حق میں تھے۔

یہ بھی پڑھیں:عدالت نے برطانوی پارلیمنٹ معطل کرنے کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا

کیمرون کے سابق اتحادی اور موجودہ وزیراعظم بورس جانسن اور مائیکل گوو نے یورپی یونین سے علیحدگی کی بھرپور مہم چلائی تھی اور کیمرون کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

بورس جانسن اور مائیکل گوو کے حوالے سے کیمرون کا کہنا تھا کہ ‘جب وہ مہم چلارہے تھے تو سچ کو گھر میں چھوڑ کر نکلے تھے’۔

یاد رہے کہ کیمرون کے استعفے کے بعد تھریسامے برطانیہ کی وزیراعظم منتخب ہوئی تھیں تاہم وہ بریگزٹ کے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہی تھیں اور انہیں 2 سال کے عرصے میں استعفیٰ دینا پڑا تھا۔

تھریسامے نے جولائی میں استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد بورس جانسن نئے وزیراعظم منتخب ہوگئے تھے لیکن پارلیمنٹ نے بریگزٹ کے حوالے سے ان کے منصوبے کو بھی مسترد کردیا تھا۔

بورس جانسن نے گزشتہ ماہ ملکہ ایلزبیتھ سے پارلیمنٹ معطل کرنے کی درخواست کی تھی جس کی منظوری دی گئی تھی تاہم اسکاٹ لینڈ کی عدالت نے معطلی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں:ملکہ برطانیہ نے پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دے دی

واضح رہے کہ برطانوی وزیراعظم متعدد مرتبہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدگی کا راستہ بنالیں گے تاحال انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ معاہدے کی کوشش کررہے لیکن برطانیہ کو کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے الگ ہوجانا چاہیے تاہم ارکان پارلیمنٹ کو خدشہ ہے کہ بغیر کسی معاہدے کے علیحدگی سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوگی۔

برطانیہ کے ایوانِ بالا نے 6 ستمبر کو وزیراعظم بورس جانسن کو بریگزٹ میں تاخیر پر مجبور کرنے کے لیے قانون کی حتمی منظوری دی تھی۔

اس قانون کے مطابق اگر برطانوی وزیراعظم یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ معاہدہ کرنے میں ناکام ہوگئے تو یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کی حالیہ حتمی مدت 31 اکتوبر سے آگے بڑھا دی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں