مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کا 47 واں روز، 'نماز جمعہ کی اجازت نہیں ملی'

20 ستمبر 2019
مقبوضہ کشمیر میں مسلسل 47 ویں روز بھی کرفیو نافذ رہا—فوٹو:اے ایف پی
مقبوضہ کشمیر میں مسلسل 47 ویں روز بھی کرفیو نافذ رہا—فوٹو:اے ایف پی

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے لاک ڈاؤن کو 47 روز مکمل ہوگئے جہاں سری نگر سمیت دیگر بڑے شہروں کی مرکزی مساجد میں نماز جمعے کی ادائیگی کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ متعدد شہروں میں شدید احتجاج کیا گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق قابض بھارتی حکام نے سری نگر کی جامع مسجد، درگاہ حضرت بل، دستگیر صاحب، چرار شریف اور جامع مسجد کشتواڑ سمیت دیگر مرکزی مساجد میں جمعے کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کے شہریوں نے سری نگر، بندی پورا، بارہ مولا، کپواڑا، اسلام آباد، پلواما، کلغام، شوپیاں اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں نماز جمعہ کے چھوٹے چھوٹے اجتماعات ہوئے جس کے بعد شہریوں نے بھارت کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔

مظاہرین نے آزادی کے حق میں اور بھارت مخالف نعرے لگائے اور نریندر مودی کی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے فیصلے کو بھی مسترد کردیا۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی عدالت نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر نریندر مودی سے وضاحت طلب کرلی

بھارتی فوج اور پولیس اہلکاروں نے مظاہرین روکنے کے لیے رکاؤٹیں کھڑی کردیں اور منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور پیلٹ گنز سے فائر کیے جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔

مقبوضہ جموں وکشمیر میں لاک ڈاؤن کے 47 ویں روز بھی معمولات زندگی معطل رہی اور کرفیو نافذ رہا۔

رپورٹ کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیر میں تمام مارکیٹیں، کاروباری مراکز، دکانیں، تعلیمی ادارے بند تھے اور سڑکوں پر ٹرانسپورٹ بھی معطل رہی اس کے علاوہ انٹرنیٹ، موبائل سروس سمیت مواصلات کے ذرائع اور اور ٹی وی چینلز بھی بدستور بند رہے۔

واضح رہے کہ ایک امریکی عدالت نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے دیگر ارکان کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر 21 روز میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کردی تھی۔

امریکی ریاست ہیوسٹن، ٹیکساس کی ضلعی عدالت نے یہ اقدام کشمیر خالصتان ریفرنڈم فرنٹ کی جانب سے دائر درخواست پر اٹھایا، جہاں نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ 22 ستمبر کو ایک مشترکہ ریلی سے خطاب کریں گے۔

مذکورہ تنظیم نے شکایت کی کہ مودی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 5 اگست کو متنازع علاقے کا الحاق کر کے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرلیا۔

مقبوضہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے؟

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں سیاہ رات کی کہانی: 'تاریک کمرے میں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے'

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں