امریکی عدالت نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر نریندر مودی سے وضاحت طلب کرلی

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2019
نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ 22 ستمبر کو ایک مشترکہ ریلی سے خطاب کریں گے—فائل فوٹو: رائٹرز
نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ 22 ستمبر کو ایک مشترکہ ریلی سے خطاب کریں گے—فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: ایک امریکی عدالت نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کے دیگر ارکان کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر 21 روز میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کردی۔

امریکی ریاست ہیوسٹن، ٹیکساس کی ضلعی عدالت نے یہ اقدام کشمیر خالصتان ریفرنڈم فرنٹ کی جانب سے دائر درخواست پر اٹھایا، جہاں نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ 22 ستمبر کو ایک مشترکہ ریلی سے خطاب کریں گے۔

مذکورہ تنظیم نے شکایت کی کہ مودی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 5 اگست کو متنازع علاقے کا الحاق کر کے مقبوضہ کشمیر پر قبضہ کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی درد بھری داستانیں سامنے آنے لگیں

درخواست میں بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور آرمی چیف کنول جیت سنگھ کو بھی غیر قانونی قبضے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر نامزد کیا گیا تھا۔

ان خلاف ورزیوں میں پہلی مرتبہ اس قدر طویل کرفیو کا نفاذ، مواصلاتی روابط مکمل طور پر منقطع کرنا، کشمیریوں کو بنیادی سہولیات نہ دینا، غیر قانونی حراست، جبری گمشدگیاں، تشدد اور ماورائے عدالت قتل شامل ہیں۔

درخواست گزار نے امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی خبر کا حوالہ بھی دیا جس میں مدعا علیہان کے کنٹرول میں موجود کشمیر میں صورتحال کو سخت خطرناک قرار دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ اس خبر میں بھارتی فوجیوں کے تشدد اور دھمکیوں کے واقعات بھی درج کیے گئے تھے۔

مقبوضہ کشمیر میں کیا ہورہا ہے؟

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں سیاہ رات کی کہانی: 'تاریک کمرے میں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے'

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں