امریکا نے ایران کے مرکزی بینک پر پابندی عائد کردی

اپ ڈیٹ 21 ستمبر 2019
ٹرمپ نے ایرانی مالیاتی اداروں پر پابندی عائد کردی—فوٹو:اے ایف پی
ٹرمپ نے ایرانی مالیاتی اداروں پر پابندی عائد کردی—فوٹو:اے ایف پی

امریکا نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں کا ذمہ داری براہ راست ایران پر عائد کرتے ہوئے ایران کے مرکزی بینک، نیشنل ڈیولپمنٹ فنڈ اور مالیاتی کمپنی اعتماد تجارت پارس پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ایران نے عالمی معشیت کو متاثر کرنے کی ناکام کوشش کے بعد سعودی عرب پر حملہ کیا، جارحیت کا یہ قدم ان کی خطرناک منصوبہ بندی اور اس پر عمل ہے'۔

سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'الزام سے توجہ ہٹانے کی کوشش کے باوجود ثبوت صرف اور صرف ایران کی نشان دہی کرتے ہیں'۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ 'صدر ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے دنیا کی سب سے بڑی ریاستی دہشت گردی پر عائد تاریخی پابندیوں پو مزید اضافہ کرنے کی ہدایت کی ہے اور ہم ان ہدایات پر عمل کررہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں:تیل کی تنصیبات پر حملے یمن سے نہیں ایران سے ہوئے، سعودی عرب

پابندیوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 'امریکا نے ایران کے مرکزی بینک، نیشنل ڈیولپمنٹ فنڈ اور ایرنی کمپنی اعتماد تجارت پارس پر پابندی عائد کردی ہے جو فوج کے لیے مالی امداد میں ملوث پائی گئی ہے'۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 'یہ ادارے ایرانی حکومت کی دہشت گردی اور دہشت گرد قرار دی گئی فوج پاسداران انقلاب کے ذریعے خطے میں جارحیت پھیلانے اور ایرانی حکومت کی بڑی پراکسی فورس قدس اور حزب اللہ کی مدد کرتے تھے'۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ 'دوسرے ممالک پر حملہ کرنے اور عالمی معیشت کو متاثر کرنے کی قیمت ہوتی ہے اور ایران کی حکومت کو سفارتی تنہائی اور معاشی دباؤ کے تحت سزا دی جائے گی'۔

ایران پر پابندیوں کے حوالے سے مزید کہا گیا کہ 'ایران جب تک مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کو عدم استحکام کرنے کی پالیسی کو تبدیل نہیں کرتا اس وقت تک زیادہ سے زیادہ دباؤ کی ہماری مہم جاری رہے گی'۔

مزید پڑھیں:’امریکا، سعودی تنصیبات پر حملے سے جنم لینے والے بحران کا پر امن حل چاہتا ہے‘

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تجارتی اور معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں جبکہ معاہدے کے دیگر عالمی فریقین برطانیہ، جرمنی، فرانس، روس اور چین نے ایران سے معاہدہ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی میں گزشتہ ہفتے اس وقت مزید اضافہ ہوا جب سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملے کیے گئےتھے جس کے بعد تیل برآمد کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو نے اپنی پیداوار روک دی تھی۔

سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد امریکا اور سعودی عرب دونوں نے ایران کو اس کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا تھا تاہم ایران نے ان بیانات کو جنگ کے لیے ایک بہانہ قرار دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ ایران جنگ کے لیے تیار ہے اس لیے کسی قسم کی جارحیت سے گریز کیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں