امریکا امن مذاکرات شروع نہیں کرتا تو جنگ کیلئے تیار ہیں، طالبان

26 ستمبر 2019
سہیل شاہین نے بتایا کہ وزرائے خارجہ کی آمد معاہدے کی کامیابی سے مشروط تھی—فوٹو: اے پی
سہیل شاہین نے بتایا کہ وزرائے خارجہ کی آمد معاہدے کی کامیابی سے مشروط تھی—فوٹو: اے پی

امریکا کی جانب سے ’افغان امن عمل‘ مذاکرات کا سلسلہ منسوخ کیے جانے کے بعد طالبان نے خبردار کیا ہے کہ اگر واشنگٹن امن کے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دیتا ہے تو پھر طالبان بھی جنگ کے لیے تیار ہیں۔

دوحہ میں طالبان کے ترجمان محمد سہیل شاہین نے افغانستان کے عوام کو انتخابی مہم اور ووٹنگ سے رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے حملوں کا عندیہ دیا۔

مزیدپڑھیں: امریکا کے ساتھ مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہوچکے ہیں، طالبان

غیرملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم انتخابات کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ امریکا نے افغانستان میں حملے کے بعد انتخابات کے ذریعے اپنا تسلط قائم کیا‘۔

خیال رہے کہ امریکا نے 11 ستمبر 2001 میں القاعدہ کی جانب سے حملوں کے بعد افغانستان میں اپنی فوج بھیجی تھی۔

سہیل شاہین نے واضح کیا کہ افغانستان میں طرز حکومت کا فیصلہ عوام کریں گے اور ہم بھی ان کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے پابند ہوں گے لیکن یہ صرف اس صورت میں ممکن ہوگا جب غیرملکیوں فوجیوں کا تسلط ختم ہوگا‘۔

’وزرائے خارجہ کی آمد معاہدے کی کامیابی سے مشروط‘

ایک سوال پر سہیل شاہین نے جواب دیا کہ افغان امن عمل سے متعلق تمام امور حتمی شکل اختیار کر گئے تھے اور اس ضمن میں معاہدے کی نقول تینوں فریقین قطر حکومت، امریکا اور ہمارے پاس تھی‘۔

یہ بھی پڑھیں: دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو قبول کریں گے، افغان طالبان

واضح رہے کہ افغان امن عمل مذاکرات میں امریکا کی نمائندگی زلمے خلیل زاد کررہے تھے۔

ترجمان طالبان نے مزید بتایا کہ قطر میں امن معاہدے سے متعلق ایک تقریب میں کم از کم 23 ممالک کے وزرائے خارجہ کو مدعو کیا جانا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ طے شدہ پروگرام کے تحت 23 تاریخ کو بین الافغان مذاکرات کا آغاز کیا جانا تھا۔

واضح رہے کہ اگر یہ معاہدہ ہوجاتا تو ممکنہ طور پر امریکا افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا لائحہ عمل طے کرتا جبکہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت شامل ہوتی کہ افغانستان مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے لیے پناہ گاہ نہیں ہوگا۔

مزیدپڑھیں: دوحہ: امریکا طالبان مذاکرات کے بعد انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع

تاہم 8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد کی ہلاکت پر یہ مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔

اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے افغانستان میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکا کو پہلے کے مقابلے میں ’غیر معمولی نقصان‘ کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مستقبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔

کیا طالبان پاکستان کی پراکسی ہیں؟

واضح رہے کہ 25 جولائی کو سہیل شاہین نے کہا تھا کہ اگر انہیں دورہ پاکستان کی دعوت ملی تو وہ اسے قبول کریں گے اور وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کریں گے۔

’طالبان پر یہ الزامات ہیں کہ وہ پاکستان کی پراکسی ہیں اور کیا اس دورے سے ان پر مزید الزامات نہیں لگیں گے؟ کے سوال کے جواب میں سہیل شاہین نے واضح کیا تھا کہ جن لوگوں کے پاس طالبان کے خلاف جھگڑے کے لیے کوئی دوسری دلیل نہیں وہ ایسے الزامات لگائیں کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے اور مستقبل میں بھی یہ ہوگا۔

افغان امن عمل سے متعلق طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ بیرونی قوتوں سے مذاکرات میں کامیابی کے بعد افغان حکومت سمیت دیگر افغان فریقین سے بھی ملاقات کی جائے گی۔

افغانستان میں صدارتی انتخابات

دوسری جانب اگر افغان صدارتی انتخابات کی بات کریں تو افغانستان میں 28 ستمبر کو صدارتی انتخابات ہوں گے، جس سے موجودہ صدر اشرف غنی کو بہت امیدیں وابستہ ہیں۔

تاہم افغانستان میں موجود طالبان اس صدارتی انتخابات کے سخت خلاف ہیں اور گزشتہ کچھ دنوں میں افغانستان میں بدامنی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا۔

مزیدپڑھیں: افغانستان میں طالبان کا فوجی اڈے پر حملہ، 12 افراد ہلاک

طالبان کی جانب سے افغانوں کو خبردار کیا گیا تھا کہ انتخابات میں وہ ووٹ نہ دیں کیونکہ وہ پولنگ اسٹیشنز اور انتخابی مہمات کو نشانہ بنائیں گے۔

رواں ماہ ہی 17 ستمبر کو افغانستان میں طالبان کی جانب سے کابل اور صدر اشرف غنی کی انتخابی ریلی پر علیحدہ علیحدہ حملوں میں 48 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس روز پہلا دھماکا افغانستان کے مرکزی صوبے پروان میں صدارتی انتخابات کے حوالے سے منعقدہ اشرف غنی کی ریلی کے دوران ہوا تھا، جس میں 26 افراد ہلاک اور 42 زخمی ہوئے تھے جبکہ اس کے ایک گھنٹے بعد ہی کابل کے وسط میں امریکی سفارتخانے کے قریب ایک اور دھماکا ہوا تھا جس میں 22 افراد ہلاک اور 38 زخمی ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں