بنگلہ دیش میں یونیورسٹی طالب علم کے قتل پر احتجاج

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2019
ڈھاکا سمیت مختلف شہروں میں طلبہ نے احتجاج کیا—فوٹو:اے ایف پی
ڈھاکا سمیت مختلف شہروں میں طلبہ نے احتجاج کیا—فوٹو:اے ایف پی

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں طالب علم کے قتل کے بعد ملک بھر میں طلبہ کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق 21 سالہ ابرار فہد کو سوشل میڈیا میں حکومت پر تنقید کرنے کے بعد چھٹی کے روز ہوسٹل میں مردہ پایا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ابرار فہد کے قتل کے شبہے میں بنگلہ دیش کی حکمراں جماعت عوامی لیگ کی طلبہ ونگ سے تعلق رکھنے والے متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش کی مشہور یونیورسٹی میں طالب علم کے قتل پر سوگ کا سماں ہے اور ہزاروں طلبہ نے احتجاج کیا جبکہ سرکاری جامعات میں رونما ہونے والے قتل کے واقعات بھی آشکار ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش: مدرسے کی طالبہ کے قتل کا معمہ، ٹیچر سمیت 13 گرفتار

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عوامی لیگ کی اسٹوڈنٹ ونگ بنگلہ دیش چترا لیگ (بی سی ایل) پر طلبہ پر تشدد اور ان سے بھتہ خوری کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، تاہم حکومت نے یقین دلایا ہے کہ وہ ابرار فہد کے قتل کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے پر کھڑا کرے گی۔

ابرار فہد کی لاش بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ڈھاکا میں اتوار کو برآمد ہوئی تھی۔

تجزیہ نگار میر صابر کا کہنا تھا کہ سرکاری جامعات میں حکمران جماعت کے اسٹوڈنٹ ونگ کارکنوں کی جانب سے تشدد کا واقعہ بنگلہ دیش میں کوئی نئی بات نہیں ہے، جامعات میں داخل ہونے والے نئے طلبہ کو اپنے پروگراموں اور ریلیوں میں شرکت کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیشی پولیس کے ہاتھوں چوتھا روہنگیا پناہ گزین ’قتل‘

ان کا کہنا تھا کہ جامعات کے اندر رہنماؤں کی باتوں سے اختلاف کرنے پر یا اپنی رائے رکھنے والے طلبہ کی مار پیٹ معمول ہے۔

میر صابر کا کہنا تھا کہ جب 2018 میں اسکول کے بچوں نے روڈ سیفٹی پر احتجاج کیا تھا تو ہیلمٹ پہنے نامعلوم افراد نے انہیں بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس کا ذمہ دار 'بی سی ایل' کے کارکنوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 2018 میں ہی بی سی ایل کے کارکنوں نے راج شاہی یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر حملہ کیا تھا اور ایک طالب علم کو ہتھوڑے سے مارنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئی تھی۔

عوامی لیگ کے ایک سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ یہی سوچنے کا وقت ہے کہ کیا اس طرز کی سیاست کی حمایت کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے 6 رہنماؤں کو سزائے موت

دوسری جانب ڈھاکا اور دیگر شہروں میں طلبہ نے سڑکوں پر احتجاج کیا اور نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں کو بلاک کردیا اور مسلسل دوسرے روز بھی ابرار فہد کے قاتلوں کو گرفتار کرنے سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔

بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں ہونے والے احتجاج میں جامعہ کے سابق طلبہ اور ٹیچنگ اسٹاف نے بھی شرکت کی۔

یونیورسٹی کی ٹیچرز ایسو سی ایشن کے صدر اے کے ایم مسعود کا کہنا تھا کہ ‘یونیورسٹی کے رہائشی ہال میں ایک طالب علم کا تشدد سے قتل ناقابل قبول ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ابرار فہد کے قتل سے واضح ہوگیا ہے کہ حکمران طلبہ کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں’۔

خیال رہے کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد پر اپوزیشن جماعتوں اور اپنے سیاسی حریف اراکین کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے کئی رہنماؤں کو گزشتہ چند برسوں میں پھانسی بھی دی جاچکی ہے جس پر عالمی سطح پر کئی ممالک کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے ایک اور رہنما کو پھانسی

پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد ابرار فہد کے ہاسٹل سے 9 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے 5 کا تعلق بی سی ایل سے ہے۔

پولیس کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 13 افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں اور یہ تمام یونیورسٹی سے ہی حراست میں لیے گئے ہیں۔

ڈپٹی پولیس کمشنر ڈھاکا منتصرالاسلام نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالب کو تشدد کرکے قتل کیا گیا۔

مقامی میڈیا کے مطابق بی سی ایل اراکین کا کہنا تھا کہ ابرار فہد کو ایک اسلامی پارٹی سے تعلق کے شبہے میں سوالات کیے گئے تھے اور تشدد بھی کیا گیا تھا۔

بی سی ایل نے ایک بیان میں کہا کہ تحقیقات کے بعد بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں تنظیم کے 11 اراکین کو نکال دیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں