عمران فاروق قتل کیس: انسداد دہشتگردی عدالت میں اہم شواہد جمع

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2019
اے ٹی سی کے جج شاہ رخ ارجمند آج  شواہد کا جائزہ لیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی
اے ٹی سی کے جج شاہ رخ ارجمند آج شواہد کا جائزہ لیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے برطانیہ میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) میں اہم شواہد جمع کرادیے۔

علاوہ ازیں لندن حکام نے بھی برطانوی شواہد پاکستانی عدالت کے سامنے پیش کرنے پر آمادگی کا اظہار کردیا۔

مزیدپڑھیں: ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس: انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ چیلنج

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق برطانوی حکام کی جانب سے فراہم کردہ شواہد میں قتل کے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج، فرانزک اور پوسٹ مارٹم رپورٹ، برآمد ہونے والا میمو، تفتیشی افسران اور دیگر 23 گواہان کے بیانات شامل ہیں۔

پراسیکیوشن نے اے ٹی سی کو آگاہ کیا کہ 23 برطانوی گواہوں میں سے 3 عدالت میں پیش ہوکر اپنا بیان دے چکے ہیں جبکہ دیگر گواہوں کے بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے ممکن ہوں گے۔

واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہونے والے 3 گواہان کا تعلق انسداد دہشت گردی کمانڈ (سی ٹی سی) سے تھا جو لندن پولیس سروس میں خصوصی آپریشن برانچ کا حصہ تھے۔

اس تمام معاملے پر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند آج (جمعہ کو) شواہد کا جائزہ لیں گے۔

مزیدپڑھیں: عمران فاروق قتل کیس فیصلہ کن مرحلے میں داخل، ساڑھے 3 برس بعد شہادتیں مکمل

خیال رہے کہ مقدمے میں نامزد 2 ملزمان خالد شمیم اور سید محسن علی مجسٹریٹ کے سامنے پہلے ہی اپنا اعترافی بیان قلمبند کرا چکے ہیں جس میں انہوں قتل کی وجہ بتاتے ہوئے کہا تھا کہ عمران فاروق بانی متحدہ کی قیادت کے لیے خطرہ تھے۔

تاہم تیسرے ملزم معظم علی نے اب تک اپنا اعترافی بیان ریکارڈ نہیں کروایا۔

خالد شمیم نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے بانی کے لیے سالگرہ کا تحفہ تھا جبکہ محسن علی نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے قتل میں معاونت کی کہ کیونکہ انہیں ایم کیو ایم کے لندن سیکریٹریٹ میں عہدہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا تھا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا تھا۔

مزیدپڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ٹرائل روکنے سے متعلق ایف آئی اے کی درخواست مسترد

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی تھی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا تھا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کومدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302 اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: دو ملزمان کا اعتراف جرم

6 دسمبر 2015 کو تین مبینہ ملزمان معظم علی ، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی تھی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے تھے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف نے انکشاف کیا تھا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: ایف آئی اے ملزمان کے خلاف چالان جمع نہیں کراسکی

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا تھا۔

29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔

جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔

ویڈیو میں خالد شمیم نے کہا تھا کہ'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انہوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا تھا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا تھا۔

28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے تھے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا تھا۔

10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 سے زائد دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں