اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے) کی جانب سے ملزمان کے خلاف چالان پیش نہیں کیا جاسکتا۔

انسداد دہشت گردی عدالت میں جج کوثر زیدی نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران ایف آئی اے پروسیکیوٹر خواجہ امتیاز، ملزمان کے وکیل اور دو ملزمان کی اہلیہ پیش ہوئیں۔

سماعت کے دوران پروسیکیوٹر کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ بانی ایم کیو ایم کی طلبی کیلئے غیر ملکی اخبارات میں اشتہار شائع ہوچکا ہے اور 9مارچ کو 30 دن کی مدت مکمل ہوگی۔

انہوں نے بتایا کہ ملزمان کے ضمنی چالان تحقیقاتی ٹیم کے پاس ہے، لہٰذا ہمیں جیسے ہی یہ چالان ملے گا ہم عدالت میں پیش کردیں گے۔

مزید پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: تین ملزمان کے ریڈ وارنٹ کے اجرا کی منظوری

ایف آئی اے پروسیکیوٹر نے بتایا کہ ملزم معظم علی کی جیل ٹرائل کے خلاف درخواست ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ مسترد ہوجائے گی۔

سماعت کے دوران ملزم معظم علی کی اہلیہ سعدیہ معظم نے عدلات کو بتایا کہ وہ ڈھائی سال سے عدالتوں میں زلیل ہورہی ہیں اور اب ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتی ہوں کہ ملزم کے حوالے سے چالان مکمل کرکے پیش کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے کے تین ملزم جیل میں پڑے ہیں وہ بھی تو انسان ہیں، اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو چاہیں تو ان ملزمان کو پھانسی پر لٹکا دیں لیکن کچھ فیصلہ تو کریں۔

سعدیہ معظم نے عدالت کے سامنے کہا کہ اس معاملے کی وجہ سے میرے بچے اذیت میں مبتلا ہیں، گائے، بھینسوں کے انجکشن پر تو از خود نوٹس لے لیا جاتا ہے لیکن کسی کو ہمارا احساس نہیں، ہوسکتا ہے پھر میں خود کو ہی آگ لگا کر زندگی کا خاتمہ کرلوں۔

اس موقع پر جج کوثر زیدی نے سعدیہ معظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اعلیٰ عدلیہ پر تبصرہ نہیں کریں، ہماری پوری کوشش ہے کہ دو ڈھائی ماہ میں ٹرائل مکمل کرلیا جائے۔

سماعت کے دوران ملزم خالد شمیم کی اہلیہ نے عدالت کو بتایا کہ ان کا شوہر بے قصور ہے لہٰذا اس کو پھانسی پر لٹکانے کی بات نہ کریں، جس پر جج کوثر زیدی نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں میں سننے کو تیار ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: بانی متحدہ کی بذریعہ اشتہار عدالت طلبی سے متعلق رپورٹ جمع

بعد ازاں جج کوثر زیدی نے حکم دیا کہ ملزمان کے خلاف ضمنی چالان آئندہ سماعت پر پیش کیا جائے ، اسی دن ہی فرد جرم عائد کردیں گے جبکہ جیل ٹرائل کے حوالے سے تینوں ملزمان کے وکیل آپس میں اتفاق رائے سے بات کرلیں۔

علاوہ ازیں انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کوثر زیدی نے اس کیس کی سماعت کو 14 مارچ تک ملتوی کردیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ ایف آئی اے نے بانی متحدہ قومی موومنٹ کی اشتہار کے ذریعے عدالت طلبی سے متعلق رپورٹ انسداد دہشت گردی عدالت ( اے ٹی سی ) اسلام آباد میں جمع کرائی تھی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 29 دسمبر 2017 کو عمران فاروق قتل کیس میں وزارت داخلہ نے تین ملزمان کے ریڈ وارنغ کے اجراء کی منظوری دی تھی۔ جن تین ملزمان کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے کی منظوری دی گئی تھی ، ان میں انور حسین، افتخار حسین اور کاشف خان کامران شامل تھے جبکہ ان کا تعلق ایم کیو ایم لندن سے ہے۔

ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل

واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن کے علاقے ایج ویئر کی گرین لین میں ان کے گھر کے باہر قتل کیا گیا تھا۔

برطانوی پولیس نے دسمبر 2012 میں اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایم کیو ایم کے قائد کے گھر اور لندن آفس پر بھی چھاپے مارے تھے، چھاپے کے دوران وہاں سے 5 لاکھ سے زائد پاؤنڈ کی رقم ملنے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع ہوئی تھی۔

برطانوی پولیس کی ویب سائٹ پر جاری کی گئی تصاویر کے مطابق 29 سالہ محسن علی سید فروری سے ستمبر 2010 تک برطانیہ میں مقیم رہا جبکہ 34 سالہ محمد کاشف خان کامران ستمبر 2010 کے اوائل میں برطانیہ پہنچا۔

مزید پڑھیں: برطانیہ: عمران فاروق قتل کیس میں نئی پیش رفت

دونوں افراد شمالی لندن کے علاقے اسٹینمور میں مقیم تھے اور ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی شام ہی برطانیہ چھوڑ گئے تھے۔

جون 2015 میں 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کی چمن سے گرفتاری ظاہر کی گئی جبکہ معظم علی کو کراچی میں نائن زیرو کے قریب ایک گھر سے گرفتار کیا گیا۔

تینوں ملزمان کو گرفتاری کے بعد اسلام آباد منتقل کیا گیا جہاں وہ ایف آئی اے کی تحویل میں تھے، ان ملزمان سے تفتیش کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی۔

یکم دسمبر 2015 کو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران فاروق قتل کیس کا مقدمہ پاکستان میں درج کرنے کا اعلان کیا تھا۔

5 دسمبر 2015 کو حکومت پاکستان نے بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، جو ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور اور افتخار حسین کے علاوہ معظم علی خان، خالد شمیم، کاشف خان کامران اور سید محسن علی کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

مقدمے میں ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی سازش اور قاتلوں کومدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعات 34، 109، 120بی،302اور 7 شامل کی گئی تھیں۔

6 دسمبر 2015 کو تین مبینہ ملزمان معظم علی ، سید محسن اور خالد شمیم کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا۔

ایف آئی کی جانب سے ملزمان کے راہداری ریمانڈ کی درخواست کی گئی، عدالت نے درخواست منظور کرتے ہوئے تینوں ملزمان کو ایک روزہ راہداری ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا تھا۔

8 جنوری 2016 کو اس مقدمے میں ملوث ملزمان میں سے دو نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا۔

ملزم محسن علی اور خالد شمیم نے جرم کا اعتراف کیا تھا جبکہ قتل کے مبینہ مرکزی ملزم معظم علی نے جرم سے انکار کردیا تھا۔

9 جنوری 2016 کو عمران فاروق قتل کیس میں اہم پیش رفت ہوئی، جب گرفتار ملزمان نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنے اعترافی بیان میں کئی اہم انکشافات کیے۔

گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا تھا کہ عمران فاروق کا قتل ایم کیو ایم کے سینیئر رہنما محمد انور کی ہدایت پر کیا گیا کیونکہ محمد انور کا خیال تھا کہ عمران فاروق الگ گروپ بنانا چاہتے تھے۔

ملزم کاشف نے انکشاف کیا کہ پارٹی کی قیادت سے حکم ملا تھا کہ عمران فاروق کو قتل کردو، انکشاف کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ ملزم معظم کو فون کرکے کوڈ ورڈ ’ماموں کی صبح ہوگئی‘ میں اطلاع دی، جس کا مطلب تھا عمران فاروق کو قتل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ ملزم کاشف کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس کا انتقال ہوچکا ہے۔

21 اپریل 2016 کو وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کی سماعت سے معذرت کرتے ہوئے کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجوانے کا حکم دے دیا۔

29 اپریل 2016 کو عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی تھی۔

جیل میں قید خالد شمیم نے ویڈیو میں الزام لگایا تھا کہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔ ویڈیو میں خالد شمیم نے کہا تھا کہ'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انھوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

04 مئی 2016 وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں عمران فاروق قتل کیس کا عبوری چالان ساتویں بار پیش کیا، جس کو منظور کرتے ہوئے عدالت نے 12 مئی سے اڈیالہ جیل میں باقاعدہ ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران فاروق قتل کیس: معظم علی رینجرز کے حوالے

28 مئی کو پاکستان آنے والی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم واپس برطانیہ روانہ ہو گئی، ٹیم نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے پاکستان میں گرفتار ملزمان کا انٹرویو کیے جبکہ پاکستانی تحقیقاتی اداروں کے سامنے کیے گئے اعترافی بیانات کا بھی جائزہ لیا۔

10 نومبر 2016 کو ملزم خالد شمیم نے اعترافی بیان میں کہا کہ انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کو سالگرہ پر تحفہ دینے کے لیے 16 ستمبر کو عمران فاروق کو قتل کرنے کی تاریخ مقرر کی تھی۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں لندن پولیس اب تک 7697 دستاویزات کی چھان بین اور 4556 افراد سے پوچھ گچھ کر چکی ہے جبکہ 4323 اشیاء قبضے میں لی گئیں۔

لندن پولیس نے قاتلوں تک رسائی کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی جبکہ قاتل تک پہنچنے والی معلومات فراہم کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔

مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھے جانے سے متحدہ قومی موومنٹ کے سفر تک کے ہر لمحہ کا حصہ رہنے والے ایم کیو ایم کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق پارٹی کے واحد جنرل سیکریٹری رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں