بنتے ٹوٹتے ارادوں کے بعد بالآخر سری لنکا نے پاکستان کا دورہ کر ہی لیا لیکن کئی اہم کھلاڑیوں کے بغیر یعنی پاکستان میں وَن ڈے اور ٹی20 سیریز کے لیے سری لنکا کی 'بی ٹیم' بھیجی گئی تھی۔

سب یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ مکمل طور پر یک طرفہ سیریز ہوگی بلکہ ون ڈے مقابلوں تک تو ایسا ہی تھا لیکن آخر میں سارے اندازے غلط ثابت ہوگئے۔ ٹی20 میں لنکا کے شیر پاکستان کو 0-3 سے ڈھیر کر گئے اور یوں پاکستان کرکٹ کے نئے سیٹ اپ پر ایک بڑا سوال اُٹھا گئے۔

پاکستان کرکٹ کے لیے یہ سال ’نئے پاکستان‘ سے زیادہ مختلف نہیں۔ یعنی توقعات اور دعوے تو آسمانوں پر ہیں لیکن حقیقی کارکردگی سب کے سامنے عیاں ہے۔

بلاشبہ ’70 سال کا گند‘ اتنی جلدی صاف نہیں ہوسکتا لیکن یاد رکھیں کہ یہ سہولت مصباح الحق کے لیے نہیں ہے کیونکہ یہ سیاست کا نہیں بلکہ کرکٹ کا میدان ہے، جہاں پاکستان کے عوام امورِ سلطنت سے زیادہ سنجیدہ نظر آتے ہیں۔

یہاں مصباح الحق کو کوئی 70 سال تو کُجا 70 دن دینے کو بھی تیار نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ سیریز ختم ہوتے ہی مصباح پر تنقید کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر وہیں سے شروع ہوگیا ہے، جہاں ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت ٹوٹا تھا اور ہمیں یہ بات کہنے دیجیے کہ اس مرتبہ مصباح پر تنقید بے جا نہیں ہے۔

پاکستان ٹی20 فارمیٹ میں تقریباً 2 سال سے عالمی نمبر ایک ہے اور ون ڈے اور ٹیسٹ کارکردگی میں آنے والے تمام تر اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان اس فارمیٹ میں تسلسل کے ساتھ اچھی کارکردگی پیش کرتا آیا ہے۔ ایسے میں ہوم گراؤنڈ پر، ہوم کراؤڈ کے سامنے اور اپنے تمام اہم کھلاڑیوں سے محروم ایک کمزور حریف کے مقابل جس طرح پاکستان نے 64، 35 اور 13 رنز کے واضح مارجن سے شکستیں کھائیں، وہ کسی کو بھی ہضم نہیں ہوں گی۔

سری لنکن ٹیم جب پاکستان پہنچی تو عالمی درجہ بندی میں یہ 8ویں نمبر پر تھی اور اگر اہم کھلاڑیوں کی عدم موجودگی کو بھی شمار کیا جائے تو شاید ٹاپ 10 میں بھی شامل نہ ہوپائے۔ ایسی ٹیم کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر ایسی بھیانک شکست واقعی معافی کے قابل نہیں بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وائٹ واش نے پاکستان کرکٹ کے نئے سیٹ اپ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔

پاکستان کرکٹ میں اس وقت سب سے طاقتور شخصیت مصباح الحق ہیں جو بیک وقت ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ عمر اکمل اور احمد شہزاد کو ٹیم میں دوبارہ شامل کرنے کے ان کے ’سنہرے فیصلے‘ کے نتائج تو سب نے دیکھ ہی لیے ہیں۔ عمر اکمل دونوں میچوں میں ’گولڈن ڈک‘ سے فیضیاب ہوئے جبکہ احمد شہزاد نے 4 اور 13 رنز کی اننگز کھیلیں اور ثابت کیا کہ ان دونوں کے انتخاب کا مطلب ہے ایک قدم آگے اور 2 قدم پیچھے جانا۔

مصباح اگر واقعی ٹی20 ورلڈ کپ سے پہلے ’سب کو‘ یکساں مواقع دینے کی حکمتِ عملی رکھتے ہیں تو انہیں 'بینچ اسٹرینتھ' کو آزمانا چاہیے، آزمائے ہوئے کھلاڑیوں کو آزمانے کا فیصلہ، کہ جو ناقص کارکردگی کے ساتھ ساتھ نظم و ضبط کے حوالے سے بھی بدنام رہے ہیں، ہرگز ٹیم کے مفاد میں نہیں ہے۔

اس سیریز سے ملنے والا یہ سبق مصباح کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، ورنہ آگے اس سے بھی بڑے مسائل کھڑے ہوجائیں گے اور نزلہ بھی انہی پر گرے گا۔ دھیمے اور ٹھنڈے مزاج کے مصباح، جو بدترین حالات میں بھی مضبوط اعصاب کے ساتھ دیکھے گئے ہیں، اس سیریز میں جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آئے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مصباح ٹیم میں موجودگی کو کارکردگی سے مشروط کریں لیکن عمر اکمل اور احمد شہزاد کی شمولیت کے نتائج سامنے آنے کے باوجود انہیں محمد حفیظ اور شعیب ملک کی واپسی کی بات کرتے دیکھا گیا۔ یہ ایک مایوس کن منظرنامے کو پیش کرتا ہے۔ درحقیقت انہیں یہ واضح کر دینا چاہیے کہ ٹیم میں موجودگی صرف کارکردگی کی بنیاد پر ہوگی، ورنہ باہر کا راستہ موجود ہے۔

دوسری جانب کپتان سرفراز احمد کے لیے حالات بد سے بدترین ہوگئے ہیں۔ ایک طرف ان کی ٹیسٹ کپتانی خطرے میں ہے تو اب حالیہ کارکردگی کے بعد ٹی20 میں قیادت بلکہ ٹیم میں جگہ بھی کھٹائی میں نظر آتی ہے۔ پہلے ہی کہا جا رہا تھا کہ مصباح الحق اور وقار یونس کی آمد کے بعد سرفراز احمد کی الٹی گنتی شروع ہوجائے گی، مگر اب تو ان کی اپنی کارکردگی اس کا جواز پیش کر رہی ہے۔ اگر اگلی سیریز میں بھی ان کے بلّے نے رنز نہ اگلے اور ایک مرتبہ پھر شکست ہوئی تو خدشہ ہے کہ سرفراز احمد کی مکمل چھٹی ہوجائے۔

ٹی20 ورلڈ کپ 2020ء میں اب پورا ایک سال باقی ہے۔ اس لیے سری لنکا کے ہاتھوں شکست سے سبق سیکھتے ہوئے آگے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستان کو آسٹریلیا کے میدانوں میں پہلے سے مضبوط آسٹریلیا کے خلاف مقابلے میں ایک بڑا امتحان درپیش ہوگا، جس کے خلاف پاکستان کو نومبر کے اوائل میں 3 میچ کھیلنے ہیں۔ لیکن انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور سری لنکا کے ہاتھوں شکستوں کے بعد دورۂ آسٹریلیا سے بہت زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں اور اگر سری لنکا کے دورہءِ پاکستان جیسی غلطیاں وہاں بھی دہرائی گئیں تو نہ صرف سرفراز بلکہ خود مصباح کے لیے بھی حالات مشکل تر ہوجائیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Syed Abdi Oct 12, 2019 01:12am
Missing the point, it is not Misbah or Mohsin or Mickey Arthur or any other coach/selector fault but it is overall player's attitude.