پی بی سی کا جسٹس عیسیٰ کے کیس کو دائرہ کار سے باہر لے جانے پر عدالت سے رجوع

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2019
یہ تفصیلات سماعت اور سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر فیصلے کے لیے بہت اہم ہیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
یہ تفصیلات سماعت اور سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر فیصلے کے لیے بہت اہم ہیں — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: پاکستان بار کونسل ( پی بی سی) نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں دائرہ اختیار سے تجاوز پر سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل(ایس جے سی) سے وضاحت دینے کا مطالبہ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بار کونسل نے حالیہ درخواست میں استدعا کی کہ فل کورٹ، سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل کو کم از کم تمام ریفرنسز دائر کرنے، سماعت کے لیے مقرر کرنے کی تاریخوں اور ہر ریفرنس میں ملنے والی شواہد سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کرے۔

اس سے قبل پاکستان بار کونسل نے سپریم کورٹ می درخواست دائر کی تھی جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کیا گیا تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ ان میں سے کوئی بھی تفصیلات سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں رازداری کے لیے محفوظ نہیں کی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو جواب جمع کروانے کی ہدایت

عدالت عظمیٰ میں سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت 2 صفحات پر مشتمل درخواست میں پاکستان بار کونسل نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی سے متعلق بنیادی سوالات اٹھائے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ دائرہ اختیار کے خلاف صدارتی ریفرنسز دائر کرنے، خارج کیے جانے والے ریفرنسز کے مندرجات شائع نہ کرنے اور کونسل میں بیٹھنے والے ان کے وہ اراکین جن کے خلاف مبینہ ریفرنسز زیر التوا ہوسکنے ہیں، یہ سب قانون اور آئین کی کئی دفعات کی خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ دیگر ریفرنس کے نتائج کی مکمل معلومات فراہم کرنے سے متعلق درخواست پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے نمائندگان کے مطالبات اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے کیے گئے اعلان کے بعد کی گئی۔

15 جون کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی مقرر کی گئی تھی، اس وقت یہ وضاحت کی گئی تھی ایس جی سی کو 426 شکایات یا ریفرنسز موصول ہوئے ہیں اور سب پر کارروائی جاری ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ 398 کیسز نمٹا دیےگئے تھے اور 2 صدارتی ریفرنسز سمیت 28 مقدمات سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے اعلان میں کہا گیا تھا کہ ‘ایسے تمام مقدمات زیر التوا ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ نمٹادیے جائیں گے‘۔

گزشتہ ماہ نئے عدالتی سال 20-2019 کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا کہ صدارتی ریفرنسز دائر کرنے کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کو موصول ہونے والی 3 شکایات پر پیش رفت ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس معاملے سے متعلق کوئی بھی معاملات عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ہوگا۔

حالیہ درخواست میں پاکستان بار کونسل نے اس امید کا اظہار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے سپریم کورٹ میں متعلقہ ڈیٹا اور ریکارڈ کے ساتھ تفصیلی جواب جمع کروایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ایک ریفرنس خارج

پاکستان بار کونسل نے کہا کہ یہ تفصیلات سماعت اور سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر فیصلے کے لیے بہت اہم ہیں۔

درخواست میں سپریم کورٹ سے درخواستوں پر فیصلے کے لیے سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل سے مطلوبہ ریکارڈ اور تفصیلات طلب کرلیں۔

پی بی سی کے علاوہ ایک سینئر جیورسٹ عابد حسن منٹو اور انسانی حقوق کے کارکن آئی اے رحمٰن کی درخواست بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، جس کے مطابق صدارتی ریفرنس میں دائرہ کار سے تجاوز سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اختیارات کا غلط استعمال تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے صدارتی ریفرنس چیلنج کردیا

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیر قانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی درخواست،'لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ کیس کیوں سنا جارہا ہے'

تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔

بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں