موبائل فون وائرس سے پاکستانی حکام کو نشانہ بنانے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2019
ان جعلی موبائل فون ایپس میں سے ایک کشمیر کے حوالے خبریں فراہم کرتی ہے—تصویر: شٹراسٹاک
ان جعلی موبائل فون ایپس میں سے ایک کشمیر کے حوالے خبریں فراہم کرتی ہے—تصویر: شٹراسٹاک

اسلام آباد: ایک سیکیورٹی فرم نے بتایا ہے کہ خطرناک ترین وائرس پر مشتمل موبائل فون کی جعلی ایپس پاک فوج اور حکومتی عہدیداران کو نشانہ بنا رہی ہیں۔

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق کینیڈین کمپنی بلیک بیری کی جانب سے بدھ کے روز جاری کردہ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ جاسوسی کی نئی مہم میں موبائل ڈیوائسز سے حساس ڈیٹا چُرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

کمپنی کا کہنا تھا کہ اسے یہ معلوم نہیں کہ اس مہم کے پسِ پردہ کون ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی ریاست کے حمایت یافتہ ہیکنگ گروپ کی کارستانی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہیک ہونے والی سرکاری ریڈیو کی ویب سائٹ کچھ ہی دیر بعد بحال

رپورٹ کے مطابق ان جعلی موبائل فون ایپس میں سے ایک کشمیر کے حوالے سے خبریں فراہم کرنے کا وعدہ کرتی ہے۔

یاد رہے کہ نئی دہلی نے اگست میں مقبوضہ کشیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے قبل وہاں لاک ڈاؤن نافذ کردیا تھا اور اس کے ساتھ ٹیلی مواصلات مکمل طور پر منقطع کردی گئی تھیں جبکہ ہزاروں افراد کو حراست میں بھی لیا جاچکا ہے۔

ایک دوسری ایپ جو خطرناک بتائی گئی ہے وہ پورنوگرافک ویب سائٹ کے مزاحیہ خاکے کی ایپ ہے۔

اس کے علاوہ ایک ڈیٹنگ چیٹ سروس اور قدرتی آفات کی صورت میں امدادی کارروائیاں کرنے والی انصار فاؤنڈیشن نامی ایپ بھی شامل ہے۔

یہ ایپس زیادہ تر گوگل کا اینڈرائڈ آپریٹنگ سسٹم استعمال کرتی ہیں جنہیں ای میل یا سوشل میڈیا میسجنگ سروس مثلاً واٹس ایپ کے ذریعے پھیلایا گیا۔

مزید پڑھیں: 5 کروڑ فیس بک صارفین کو ہیکرز سے خطرہ لاحق

خیال رہے کہ ماضی میں موبائل فونز بنانے والی مشہور و معروف کمپنی بلیک بیری اب سیکیورٹی بزنس سے منسلک ہوچکی ہے۔

ان کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ یہ مہم عالمی سطح پر اس ٹرینڈ کو ظاہر کرتی ہے کہ ہیکرز اب زیادہ تر موبائل فونز کو نشانہ بناتے ہیں کیوں کہ لوگ انہیں ذاتی استعمال کے ساتھ ساتھ کام کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں‘

کمپنی سے تعلق رکھنے والے عہدیدار برائن رابنسن کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ہمارے سامنے ایسی کوئی مثال نہیں آئی کہ جس میں ہیکرز مخصوص افراد کو نشانہ بنا رہے ہوں بلکہ یہ ایک وسیع حملہ تھا‘۔


یہ خبر 24 اکتوبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں