قرض پروگرام کی کارکردگی پر جائزے کیلئے آئی ایم کا وفد پاکستان میں موجود

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2019
جائزے کے بعد رواں برس دسمبر کے آغاز میں پاکستان کو 45 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے فنڈز کی دوسری قسط موصول ہوگی— فائل فوٹو: اے ایف پی
جائزے کے بعد رواں برس دسمبر کے آغاز میں پاکستان کو 45 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے فنڈز کی دوسری قسط موصول ہوگی— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا وفد 6 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہے۔

آئی ایم ایف کے پہلے جائزے کی کامیابی سے تکمیل کے بعد رواں برس دسمبر کے آغاز میں پاکستان کو 45 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کے فنڈز کی دوسری قسط موصول ہوگی، جس کے بعد قرضے کی مد میں وصول کی جانے والی رقم ایک ارب 44 کروڑ ڈالر ہوجائے گی۔

رواں برس جولائی میں فنڈ پروگرام پر دستخط سے قبل پاکستان کی جانب سے کیے گئے تمام وعدوں پر عملدرآمد کے بعد آئی ایم ایف کی جانب سے 6 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج میں سے 99 کروڑ 14 لاکھ ڈالر کی پہلی قسط موصول ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں: پاکستان کو آئی ایم ایف پیکج کی پہلی قسط موصول

ارنیسٹو رامیریز ریگو کی قیادت میں پاکستان میں موجود وفد تمام متعلقہ وزرا، ڈویژنز اور محکموں کے حکام سے تکنیکی مذاکرات کرے گا۔

آئی ایم ایف کا وفد وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رضا باقر سے پالیسی مذاکرات کے بعد 7 نومبر کو روانہ ہوجائے گا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے پہلی سہ ماہی کا جائزہ مثبت انداز میں مکمل ہونے کا امکان ہے کیونکہ حکام نے اکثر بینچ مارکس میں اچھی کارکردگی ظاہر کی ہے اور پہلی سہ ماہی کے لیے کارگردگی کا معیار ستمبر 2019 تک طے کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں آئی ایم ایف کے سینئر عہدیداران نے فنڈز سے وابستہ توقعات سے بالاتر ہو کر وعدوں کو پورا کرنے پر پاکستانی حکام کی تعریف کی تھی۔

تاہم نمایاں پیش رفت کے باوجود کچھ اہداف کی تکمیل میں معمولی کمی اب بھی موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 6 ارب ڈالر قرض کی منظوری دے دی

حکام کو امید ہے کہ دسمبر 2019 میں ختم ہونے والی موجودہ سہ ماہی میں مثبت رویہ برقرار رکھتے ہوئے اس کمی کو بھی پورا کیا جائے گا۔

اسلام آباد میں موجود حکام نے کہا کہ وہ پہلی سہ ماہی میں فنڈ پروگرام کی مجموعی کارکردگی سے مطمئن ہیں کیونکہ ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے لائسنس فیس کی مد میں ادا کیے گئے نان ٹیکس ریونیو کی وجہ سے ریونیو کی کمی پوری ہوگئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پاور اور گیس کمپنیوں کو آئی ایم ایف بینچ مارکس کے مطابق برقرار رکھنے کے لیے ضرورت کے باوجود نئی ضمانتوں کا اجرا روک دیا ہے۔


یہ خبر 28 اکتوبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں