یورپی یونین نے بریگزٹ میں 31 جنوری تک توسیع کی منظوری دے دی

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2019
یورپی یونین کونسل کے صدر نے ٹویٹر پر توسیع کا اعلان کیا—فائل/فوٹو:اے ایف پی
یورپی یونین کونسل کے صدر نے ٹویٹر پر توسیع کا اعلان کیا—فائل/فوٹو:اے ایف پی

یورپی یونین کے رکن ممالک نے برطانیہ کو یونین سے علیحدگی کے لیے مزید وقت دینے پر رضامندی کا اعلان کرتے ہوئے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے 31 جنوری تک بریگزٹ میں توسیع کردی۔

یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر میں اپنے بیان میں کہا کہ ‘یورپی یونین بریگزٹ میں توسیع کے لیے برطانیہ کی درخواست کو منظور کرے گی اور اس کو 31 جنوری 2020 تک توسیع دی جائے گی’۔

غیر ملکی خبر ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق یورپی یونین کے رکن ممالک اس حوالے سے تحریری منظوری سے قبل برطانیہ کے جواب کا انتظار کریں گے جبکہ تحریری منظوری کے حوالے سے حکومتوں کے پاس برسلز میں ان کے نمائندوں کی موجودگی میں طے پانے والے معاہدے کو قبول یا رد کرنے کے لیے 24 گھنٹے ہوں گے۔

یورپی یونین کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ‘اس حوالے سے ہم تحریری سلسلہ اسی وقت شروع کر سکتے ہیں جب برطانوی حکومت کا معاہدہ ہمارے پاس ہوگا’۔

مزید پڑھیں:برطانوی پارلیمنٹ کا ایک بار پھر بریگزٹ معاہدے کے التوا کے حق میں ووٹ

ان رپورٹس کی تصدیق کرتے ہوئے یونین کے سفارت کاروں کا کہنا تھا کہ تحریری پروسیجر کی میعاد 24 گھنٹے رکھنے پر اتفاق ہوا تھا تاہم اس کا وقت لندن کی جانب سے 31 جنوری تک توسیع کے لیے کی گئی پیش کش کو قبول کرتے ہی شروع ہوگا۔

یورپی یونین کے سفارت کار نے کہا کہ ‘اس فیصلے کو باقاعدہ طور پر اپنانے کے لیے ایک دن کی مہلت ہوگی’۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے یورپی یونین کی پیش کش کو باقاعدہ طور پر قبول کرلیا ہے لیکن اس سے قبل ملک میں نئے انتخابات پر بھی زور دیا ہے۔

یورپی یونین کو ایک خط میں انہوں نے کہا کہ ‘یہ ایک ناپسندیدہ توسیع ہے’۔

انہوں نے یونین کو مزید کسی توسیع کے امکان کو رد کرتے ہوئے کہا کہ میرے بریگزٹ منصوبے کو دیکھنے کا وقت تھا لیکن خدشات تھے کہ موجودہ پارلیمنٹ ایسا نہیں کرنے دے گی۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم بورس جانسن بریگزٹ توسیع کی درخواست کریں گے، برطانوی حکومت

واضح رہے کہ برطانیہ کو 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے الگ ہونا تھا تاہم پارلیمنٹ نے بورس جانسن کو معاہدے کے بغیر علیحدگی سے روکتے ہوئے توسیع کے لیے درخواست کرنے پر مجبور کیا حالانکہ وہ واضح کرچکے تھے کہ بریگزٹ توسیع کے بجائے کھائی میں گرنے کو ترجیح دوں گا۔

بریگزٹ کے معاملے پر سابق وزیراعظم تھریسامے کو اپنے منصب سے مستعفی ہونا پڑا تھا کیونکہ انہیں نہ صرف اپنی پارٹی کے اندر بلکہ پارلیمنٹ میں بھی شدید مخالفت کا سامنا تھا۔

رواں برس جولائی میں بورس جانسن کو برطانیہ کا نیا وزیراعظم منتخب کیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا اور اسی کے لیے انہوں نے پارلیمنٹ کو بھی معطل کرنے کی منظوری لی تھی۔

برطانوی سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی معطلی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا جس کے بعد بورس جانسن کے پاس مواقع محدود ہوگئے تھے اور پارلیمنٹ نے التوا کے لیے درخواست کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں