ٓآرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی تحلیل کرنے کا فیصلہ عدالت میں چیلنج

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2019
اپنا موقف بیان کرنے کا کوئی موقع دیے گئے بغیر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے  ملازمین کو برطرف کردیا گیا —فائل فوٹو: ڈان نیوز
اپنا موقف بیان کرنے کا کوئی موقع دیے گئے بغیر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ملازمین کو برطرف کردیا گیا —فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر حفیظ الدین اور 31 ملازمین نے آرڈیننس کے ذریعے پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل تحلیل کرنے کے خلاف دائر کی گئی درخواست سماعت کے لیے مقرر کردی۔

عدالت عالیہ نے صدر مملکت، کابینہ ڈویژن، وزارت قانون اور صحت کے سیکریٹریز، چیف کمشنر، اٹارنی جنرل اور نو تشکیل کردہ پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی) کے صدر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 8 نومبر تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ حال ہی میں تحلیل کی گئی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر حفیظ الدین اور 31 ملازمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرنے کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس نافذ، پی ایم ڈی سی کو تحلیل کردیا گیا

درخواست میں کہا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کے ایک عمل کے ذریعے حکومت کو پی ایم ڈی سی تحلیل کرنے کے اختیارات مل گئے لیکن اس کے صدر، نائب صدر اور ایگزیکٹو کمیٹی ایک سال کی مدت میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں نئی افراد کے تقرر تک عہدوں پر رہیں گے۔

علاوہ ازیں وفاقی حکومت کو ایگزیکٹو کمیٹی کی سربراہی کے لیے بطور ایڈمنسٹریٹر 20 گریڈ کا افسر مقرر کرنے کا اختیار حاصل تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ نئی کونسل کے قیام تک ایگزیکٹو کمیٹی اور ایڈمنسٹریٹر کونسل کے اختیارات استعمال کرسکتے تھے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ برس سپریم کورٹ نے آرڈیننس کے نفاذ کا معیار طے کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن جماعتوں نے پی ایم ڈی سی کا نیا آرڈیننس مسترد کردیا

درخواست میں کہا گیا کہ '29 اگست 2019 کو آرڈیننس کی شقوں پر غور کرنے اور رائے شماری کے بعد سینیٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل آرڈیننس 2019 کو مسترد کردیا تھا تاہم صدرِ مملکت نے دوبارہ پی ایم ڈی سی آرڈیننس 2019 سے مماثلت رکھتی ہوئی دفعات عائد کیں'۔

اس درخواست میں مزید کہا گیا کہ اپنا موقف بیان کرنے کا کوئی موقع دیے گئے بغیر پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ملازمین کو برطرف کردیا گیا۔

ساتھ ہی اس میں خدشات کا اظہار بھی کیا گیا کہ پی ایم سی حال ہی میں پی ایم ڈی سی کے برطرف کیے گئے ملازمین کی جگہ نئی بھرتیوں اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے عہدوں کا اشتہار دے سکتی ہے، جس سے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ملازمین کی حق تلفی ہوگی۔

درخواست میں عدالت سے پی ایم سی کے قیام سے متعلق آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی اور پی ایم ڈی سی کے ملازمین کو نو تشکیل کردہ کمیشن میں ملازمت جاری رکھنے کی اجازت دینے کی درخواست بھی کی گئی۔

پی ایم سی آرڈیننس کا نفاذ

خیال رہے کہ صدر عارف علوی نے 20 اکتوبر کو پاکستان میڈیکل کمیشن(پی ایم سی) آرڈیننس نافذ کرتے ہوئے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کو تحلیل کردیا تھا۔

جس کے بعد وزارت برائے قومی صحت (این ایچ ایس) نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے پاکستان میڈیکل کونسل کی عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور کونسل کے 220 ملازمین کو ہدایت کردی کہ دفتر ایک ہفتے کے لیے بند رہے گا۔

اس معاملے پر جب پی ایم ڈی سی کے رجسٹرار بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر حفیظ الدین احمد صدیقی سے رابطہ کیا گیا تھا تو انہوں نے بتایا تھا کہ وہ بھی لاعلم تھے کہ وزارت قومی صحت نے عمارت کا کنٹرول سنبھالنے کا فیصلہ کرلیا۔

علاوہ ازیں پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019 کے نفاذ سے پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کو غیرمعمولی اختیار تفویض ہوگئے، جس کے تحت وہ اپنی مرضی سے فیس کا تعین کرسکیں گے۔

بعد ازاں24 اکتوبر کو وزیر اعظم نے پاکستان میڈیکل کمیشن آرڈیننس 2019 کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل تشکیل دے دی تھی۔

کونسل میں سول سوسائٹی سے تین اراکین کو شامل کیا گیا جن میں کشف فاؤنڈیشن لاہور کی روشنی ظفر، آر کے اے لا کے محمد علی رضا اور بیکر ٹِلی کے پارٹنر طارق احمد خان شامل ہیں۔

اسی طرح کونسل میں انتہائی تجربہ کار 4 ڈاکٹروں کو بھی شامل کیا گیا، جن میں آغا خان یونیورسٹی کی ڈاکٹر رومینہ حسن، شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے ڈاکٹر آصف لوئیہ، حمید لطیف ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر ارشد تقی اور ڈاکٹر انیس رحمٰن شامل تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں